حافظ محمد عمران
محمد معین
ایک طرف بھارت میں کرکٹ ورلڈکپ کے مقابلے جاری ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں کے مسائل ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ آج پاکستان نے ایک اہم میچ نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلنا ہے شکست کی صورت میں واپسی کا سفر آسان کو جائے گا جب کہ اچھی فتح کی صورت میں اگر مگر کب کیسے کی صورتحال برقرار رہے گی۔ آج پاکستان کا اہم میچ آخری بھی ثابت ہو سکتا ہے وہیں پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین ذکا اشرف کا بورڈ میں بھی آخری دن ہو سکتا ہے کیونکہ ان کی چار ماہ کی مدت آج ختم ہو رہی ہے ہو سکتا جب آپ ان سطور کا مطالعہ کر رہے ہوں اس حوالے سے کوئی اطلاع آ چکی ہو لیکن اگر حکومت کی طرف سے کوئی نوٹیفکیشن نہیں ہوتا تو پھر رات بارہ بجے کے بعد کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ہماری کرکٹ کے حالات ہیں۔ ٹیم عالمی کپ کھیل رہی ہے اور ہمارے چیف سلیکٹر مستعفی ہو چکے ہیں ان پر مفادات کے ٹکراو¿ کی انکوائری ہو رہی ہے۔ چیف سلیکٹر پر نہایت سنجیدہ نوعیت کے الزامات ہیں ان کا پلیئرز ایجنٹ کمپنی کے ساتھ تعلق بھی بتایا جا رہا ہے اور وہ کھلاڑیوں کے مالی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے رہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سب کچھ کرتے ہوئے وہ ٹیم سلیکشن بھی کرتے رہے ہیں۔ ساتھ ہی۔ ان کے اپنے صاحبزادے بھی کرکٹ کھیل رہے ہیں سابق ٹیسٹ کرکٹر عاقب جاوید کہتے ہیں کہ ایسی باتیں تو ہم کافی دیر سے سن رہے ہیں جب آپ کا کوئی بہت قریبی کرکٹ کھیل بھی رہا ہو تو ایسی کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرنی چاہیے۔ انضمام الحق مستعفی ہوئے ہیں ایک ہفتے میں کمیٹی نے تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ جمع کروانی ہے دیکھنا ہے کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے لیکن بظاہر انضمام الحق کے لیے حالات اچھے نہیں ہیں۔ عالمی کپ کے دوران چیف سلیکٹر کے مفادات ٹکراو¿ کا تنازعہ اور مستعفی ہونے کے فیصلے سے پاکستان کرکٹ کی ساکھ کو بہرحال نقصان پہنچا ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم نے عالمی کپ میں غیر معیاری کھیل کا مظاہرہ کیا ہے۔ باولنگ، بیٹنگ، فیلڈنگ، حکمت عملی اور کپتان کے فیصلوں کو دیکھا جائے تو پاکستان بہترین ٹیموں سے بہت پیچھے نظر آتا ہے۔ بھارت، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور دیگر ٹیمیں عالمی کپ جیتنے کی کوششوں میں
ہیں اور ہمارے چیئرمین کرکٹ بورڈ کو اپنی کرسی کی فکر پڑی ہوئی ہے، چیف سلیکٹر کی انکوائری ہو رہی ہے، کھلاڑی اپنے سنٹرل کنٹریکٹ معاملے میں الجھے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی کپ کی تیاریاں ٹھیک طریقے سے نہیں ہو سکیں اور پاکستان کو افغانستان جیسی نسبتا ناتجربہ کار ٹیموں کے خلاف بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس عالمی کپ میں ایسا بھی ہوا ہے کہ پوائنٹس ٹیبل پر افغانستان پاکستان سے اوپر رہا ہے۔ کیا یہ شرمندگی کافی نہیں ہے۔ سات میں سے چار میچوں میں ناکامی کے بعد اب ایک مرتبہ پھر ہم اگر مگر کے کھیل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پاکستان ٹیم نے نہ تو اچھی کرکٹ کھیلی ہے نہ ہی دنیا کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نظر آئی ہے۔ ہم آئی سی سی کی درجہ بندی میں بہتر نمبروں پر خوش ہوتے رہے اور عالمی کپ میں اب تک کسی بھی اچھی ٹیم سے نہیں جیت سکے۔ کیا اس خراب کارکردگی کا کوئی حساب لے گا، کیا کوئی جواب دے گا، کیا کوئی ذمہ داری قبول کرے گا؟؟؟