اتوار کی صبح یہ کالم لکھنے کے لیے قلم اٹھانے سے قبل تقریباً ایک گھنٹہ اس سوال پر غور کرتا رہا کہ جو موضوع میرے ذہن میں ہے اسے زیر بحث لائوں یا نہیں۔ امریکا میں منگل کے روز ہونے والے صدارتی انتخابات کے بارے میں لکھنا چاہتا تھا۔ کئی دنوں سے مگر یہ خیال تنگ کیے جارہا تھا کہ ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا میں اس موضوع پر کماحقہ توجہ نہیں دی جارہی۔ عدم دلچسپی کی وجہ میری خواہش ہے کہ ’حقیقی آزادی‘ ہوتی ۔ جنھیں مذکورہ ’آزادی‘ ہمیں دلوانا تھی وہ مگر ’ہم کوئی غلام ہیں‘ کا سوال اٹھانے کے بعد امریکی پارلیمان کے نمائندوں سے اپنے قائد کی حمایت میں قراردادیں منظور کروارہے ہیں۔ حال ہی میں ایسے 62اراکین نے صدر بائیڈن کو ایک خط بھی لکھا ہے۔ موصوف سے مطالبہ ہوا کہ وہ پاکستان کی جیل میں قید تحریک انصاف کے بانی کی ’خیرت‘ یقینی بنائیں۔ ان کے خلاف لگائے ’بے بنیاد الزامات‘ کا بھی ازخود جائزہ لینے کے بعد حکومت پاکستان کو بندے کا پتر بننے کا حکم دیں۔ حیران کن حقیقت یہ بھی ہے کہ بائیڈن کو خط لکھنے پر اُکسانے والوں کی اکثریت امریکی صدرسے نفرت بھی کرتی ہے۔ مصر ہے کہ و ہ غزہ میں فلسطینی عوام کے قتل عام پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دبائو نہیں بڑھارہا۔
پاکستانی نژاد ہی نہیں بے شمار عرب نژاد اور دیگر خطوں سے امریکا آکر آباد ہوئے مسلمانوں کی خاطر خواہ تعداد بائیڈن انتظامیہ کے غزہ کے بارے میں اختیار کردہ رویے سے خفا ہوکر ٹرمپ کی حمایت میں ووٹ ڈالنا چاہ رہی ہے۔ حالانکہ ٹرمپ نے 2016ء کا انتخاب جیتنے کے بعد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور تیل کی دولت سے مالا مال دیگر خلیجی ممالک پر دبائو بڑھانا شروع کردیا تھا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔ صہیونی ریاست کو تسلیم کروانا ہی اس کا واحد ہدف نہ تھا۔ اس کی یہ خواہش بھی رہی کہ عرب ممالک اپنی دولت اسرائیل سے جدید ترین ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے خرچ کریں اور ایران کے مقابلے میں خوشحال عرب دنیا کا تصوراجاگر ہو۔ جو طویل المدت منصوبہ اس نے سوچا اس پر عمل درآمد کا فریضہ اپنے داماد کے سپر د کردیا۔ اس نے عرب ملکوں کے ساتھ اپنے روابط کی بدولت ایک بہت بڑی فرم بنارکھی ہے جو امریکا کے مختلف کاروباری اداروں میں سرمایہ کاری کی راہ بناتی ہے۔ ٹرمپ کی بیٹی اور داماد ان دنوں ٹرمپ کی انتخابی مہم سے کنارہ کشی اختیار کیے نظر آتے ہیں۔ اپنے آبائی شہر نیویارک کو چھوڑ کر میامی منتقل ہوچکے ہیں۔ ان دونوں کی ٹرمپ کی انتخابی مہم سے دوری کوتاہم امریکی تجزیہ کاروں کا باخبر گروہ دھوکہ دیتی چال قراردیتا ہے۔ یہ گروہ مصر ہے کہ ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہوگیا تو اس کا داماد-جیرڈکشنر- امریکا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ہنری کسنجر جیسا بااثر مشیر بن جائے گا۔ تحریک انصاف کے کئی دوستوں کا دعویٰ ہے کہ عمران خان صاحب کے ایک طاقتور مشیر -زلفی بخاری- جو اِن دنوں لندن میں مقیم ہیں اُن کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ غالباً اسی باعث امید دلائی جارہی ہے کہ منتخب ہوتے ہی ڈونلڈٹرمپ فون اٹھائے گا اور بانی تحریک انصاف کے لیے جیل کا پھاٹک کھل جائے گا۔
عاشقان عمران نے ٹرمپ سے جو امیدیں باندھ رکھی ہے انھیں ذہن میں رکھتے ہوئے توقع تھی کہ ہمارے ہاں کم از کم سوشل میڈیا میں امریکا کے صدارتی انتخاب پُرجوش انداز میں زیر بحث لائے جائیں گے۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ کئی برسوں سے میں دہائی مچارہا ہوں کہ انٹرنیٹ کی بدولت متعارف ہوئے پلیٹ فارموں نے ہمیں خود پسند وخود غرض بنادیا ہے۔ انسٹاگرام اور ٹک ٹاک نے ہمیں غوروفکر کے بجائے محض ہنسی مذاق کی راہ پر لگادیا ۔ صحت مند زندگی مزاح کا تقاضہ بھی کرتی ہے۔ دنیا کے چند معاملات مگر سنجیدہ توجہ کے مستحق ہیں۔
مثال کے طورپر منگل کے روز جو انتخاب ہورہا ہے وہ میری دانست میں اخلاقی اعتبارسے دورویوں کے درمیان کڑے مقابلے کا اظہار بھی ثابت ہوگا۔ نہایت کھلے ذہن کے ساتھ میں نے ڈونلڈٹرمپ کی شخصیت کوکئی کتابوں اور مضامین کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ہر اعتبار سے وہ دوسروں پر دھونس جماتا، عادتاً جھوٹ بولتا اور مالی اعتبارسے نوسر بازیاں کرتا شخص محسوس ہوا۔ عورتوں کے بارے میں اس کی سوچ بازاری لونڈے لپاڑوں جیسی ہے۔ اس کے خلاف دھوکہ دہی کے مقدمات چل رہے ہیں۔ نیویارک کی ایک عدالت فیصلہ سناچکی ہے کہ اس نے ایک عورت کو ’منہ بندرکھنے‘ کے لیے گزشتہ صدارتی انتخاب کے قریب خطیر رقم ادا کی تھی۔
کملاہیرس اس کے مقابلے میں بھارت اور جمیکا سے امریکا گئے والدین کی بیٹی ہے ۔اس نے نہایت لگن سے وکالت میں نام کمایا اور بالآخر امریکا کی نائب صدر منتخب ہوئی۔ اس کی زندگی محنت اور میرٹ کی علامت ہے۔ اس کی سب سے بڑی کمزوری محض یہ نظر آتی ہے کہ وہ عورت ہے اور امریکی عوام کی اکثریت ابھی تک ذہنی اعتبار سے یہ بات تسلیم کرنے کو رضا مند نہیں ہورہی کہ دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے امریکا کی قیادت ’نازک مزاج اور جذباتی‘ تصور ہوتی جنس یعنی عورت کے سپرد کردی جائے۔بائیڈن نے کملا کو انتخابی میدان میں اُتارنے میں بہت دیر لگائی۔ اس کی امید واری کا اعلان ہوتے ہی مگر ڈیموکریٹ پارٹی میں جان پڑگئی۔ اس نے نوجوانوں کو یک دم متحرک کردیا۔ کملا کی حمایت میں ابھری لہر نے مگر امریکا کے اجارہ دار سیٹھوں کو پریشان کردیا۔ ان کی اکثریت نے ٹرمپ کو کامیاب کروانے کے لیے محاورے والے خزانوں کے منہ کھول دیے ہیں۔ ٹرمپ کے حامی سیٹھوں میں ایلون مسک سرفہرست ہے۔ اس نے ٹویٹر خرید کر اسے ’ایکس‘ کا نام دیا۔ یہ پلیٹ فارم نہایت ڈھٹائی سے ٹرمپ کی جیت یقینی بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ مسک سے یاد آیا کہ ان دنوں پاکستان میں ٹویٹر(ایکس) کو تقریباً بین کردیا گیا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ٹرمپ صدارتی انتخاب جیت گیا تو پہلا فون پاکستان میں ٹویٹر کھلوانے کے لیے کرے گا یا عمران خان کی اڈیالہ جیل سے رہائی ہی موصوف کی اولین ترجیح ہوگی۔
عاشقانِ عمران کی ٹرمپ سے وابستہ امیدیں
Nov 04, 2024