لندن(این این آئی)دنیا بھر میں غیر معمولی شہرت اور ساکھ رکھنے والے برطانوی نشریاتی ادارے کی ساکھ پر غزہ میں اسرائیلی جنگ ایک بڑے حملے کے طور پر سامنے آئی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق بی بی سی کے اپنے ایک سو سے زائد کارکنوں سمیت برطانیہ کی میڈیا انڈسٹری سے وابستہ کارکنوں، سیاستدانوں اور دیگر اہم 230 افراد نے ایک خط میں بی بی سی پر غزہ جنگ کے حوالے سے جانبداری کی نشاندہی کی ہے۔230 اہم برطانوی شخصیات کی طرف سے لکھا گیا یہ خط بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوائی کو ارسال کیا گیا ہے۔یہ 230 افراد عام برطانوی شہری نہیں ہیں بلکہ ان میں ایک سو سے زیادہ بی بی سی کے اپنے کارکن اور باقی برطانیہ کی میڈیا انڈسٹری کے دوسرے اداروں سے منسلک کارکن ہیں جنہوں نے مشترکہ طور پر بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل کو ایک کھلا خط لکھا کہ اپنی ساکھ اور خبروں کا معیار ٹھیک کرو۔خط میں کہا گیا کہ پبلک براڈ کاسٹر غزہ جنگ کے حوالے سے درست اور منصفافہ رپوٹس دینے میں ناکام رہا ہے، یہ خط سب سے پہلے انڈیپینڈنٹ کے سامنے آیا تو اس نے لکھا کہ بی بی سی کو پوری معروضیت کے ساتھ لازماً منصفانہ اور درست رپورٹنگ کرنی چاہیے۔اپنے سربراہ کے نام کھلا خط لکھنے والے بی بی سی کارکنوں میں سے ایک نے انڈیپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے اپنی شناخت طاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ کہا کہ ہم میں سے اکثر اس قدر خوفزدہ ہیں جیسے ہم فالج زدہ ہو گئے ہوں۔اس طرح کے حالات سے تنگ آکر کئی بی بی سی کارکن ادارے کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کی اس جاری جنگ میں بی بی سی نے دیانتدارانہ رپورٹنگ نہیں کی ہے۔اس کھلا خط لکھنے والوں میں برطانوی ہاؤس آف لارڈز کی رکن سعیدہ وارثی بھی شامل ہیں جبکہ دوسرے کئی سیاستدان، پروفیسرز اور میڈیا پرسنز شامل ہیں۔ ان میں مورخ ولیم داریمپل ، اداکارہ جیولیٹ سٹیون سن ، سوشیالوجی کی استاد ڈاکٹر کیتھرین ہاپر ، میڈیا مانیٹرنگ سنٹر کی ڈائریکٹر رضوانہ حمید ، ممتاز براڈ کاسٹر جان نیکلسن اور کالم نگار اوئن جونز بھی شامل ہیں۔