4نومبر :سردار خالد ابراہیم خان کی یادوں کے چراغ

 سردار خالد ابراہیم خان کو ہم سے بچھڑے چھ برس بیت گئے ، وہ ہمارے دل و دماغ سے نہیں اترے، ان کے چلے جانے کے سے ریاست سے حق گوئی سے مزین جاندار آواز کا خاتمہ ھو گیا، اصول اقدار کا علم سرنگوں ھو گیا، عظیم کردار کا شہسوار تراب کے پرتوں میں کھو گیا، وہ آپ اپنی مثال تھے،۔ دنیا کی چکا چوند و کروفر اسے اس کی زندگی کے ایک لمحہ کیلئے بھی متاثر نہیں کر سکیں، وہ گفتار کا نہیں کردار کا غازی تھا، سردار خالد ابراہیم خان آج کے اس سماج و معاشرے کی زندہ لاشوں میں زندہ ضمیر انسان تھا، عمر بھر سردار خالد ابراہیم خان نے اس بے حس و ذہنی غلام دنیاوی چکا جوند سے متاثرہونے والے معاشرے کیلئے جرات و بہادری سے حقوق کی جنگ لڑی، اس شخص کی  زندگی میں کسی نے اس کی قدر نہ کی اس کی آواز پہ کسی نے لبیک نہ کہا، لیکن جب وہ اس دنیا سے عالم بقا کی طرف کوچ کر گئے تو سب اس کی طرف ہوگئے ، اس کی یادیں سب کو ستانے لگیں، ان کے جنازے نے انوکھا منظر پیش کیا تل دھرنے کی جگہ میسر نہ رہی ان کی  کو الوداع کہنے والوں کی تعداد گننے میں نہ آتی تھی، وہ لوگ جن کا دروازہ اس شخص نے بار ہا کھٹکھٹایا مگر دروازہ کے قفل کھلوانے میں کامیاب نہ ھو سکا، اس کی موت پہ انھی لوگوں نے اپنے سارے دریچے وا کر دیئے،  ہر کوئی اس کی محبت کا دعویدار تھا محب تھا جانثار تھا،سردار خالد ابراہیم خان عمر بھر سچائی اور اصول پہ کھڑے رہے، انھوں نے اپنی سفید پوشی کو دھبہ نہیں لگنے دیا، بار ہا اقتدار نے ان کی دہلیز پہ دستک دی لیکن آپ نے نہ بنائے گئے قوانین کو توڑا اور نہ ہی اصولوں پہ سودے بازی کی، بڑی بڑی مرعات کی پیشکشیں سردار خالد ابراہیم خان کے پائے استقامت میں ذرا بھر ارتعاش نہ لا سکیں،سردار خالد ابراہیم خان نے جمہوریت کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں، انھوں نے ضیائی مارشل لا کے دور میں جمہوریت کی بحالی کی خاطر ماریں کھائیں اپنا بازو تڑوایا، دلائی کیمپ مظفرآباد اور پلندری جیل میں قید کاٹی، سردار خالد ابراہیم خان نے آج کل کی اس روایتی کرپشن زدہ سیاست سے بغاوت کر کے خطے میں شفاف و آزادانہ سیاست کی بنیاد رکھ کر مثال قائم کی، سردار خالد ابراہیم خان کسی بھی طاقتور کی ڈکٹیشن پر سیاست کرنے کے قائل نہ تھے، کھری و سچی بات کہنا اور پھر اس پہ قائم رہنا ان کا طرہ امتیاز تھا، سردار خالد ابراہیم خان فرمایا کرتے تھے کہ پاکستانی سیاستدانوں کے اقوال پہ کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا، آپ کہا کرتے تھے کہ پاکستانی سیاست دانوں کے ہمدوش حثیت میں تو چلا جا سکتا ھے، مگران  پیچھے چلنا ممکن نہیں ، سردار خالد ابراہیم خان نے زندگی بھر کمپرومائز طرز کی سیاست نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ سردار خالد ابراہیم خان اپنے اصولی و دوٹوک موقف کے باعث تمام سیاسی حلقوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ، انھوں نے ہار جیت کو کبھی سیاست میں رکاوٹ نہیں بننے دیا، انھوں نے اصولی سیاست کے معیار کو برقرار رکھا، آپ فرمایا کرتے تھے کہ اقتدار کی خواہش ضرور ہے لیکن منزل نہیں ،عزت و وقار کا معیار اقتدار نہیں بلکہ کردار ہے، جس کو سردار خالد ابراہیم خان مرحوم نے عملی طور پہ ثابت کر کے دکھایا، آج وہ کشمیر کی تاریخ میں اصولی سیاست میں علمبردار کے طور پر جانے جاتے ہیں، انھوں نے کبھی بھی پرمنٹ و پلاٹ کی سیاست نہیں کی ، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بڑے باپ غازی ملت ( سردار محمد ابراہیم خان  )کے بیٹے تھے جن کی تاریخی جد وجہد مسلمہ ھے، لیکن سردار خالد ابراہیم خان اپنے مثالی کردار کی وجہ سے اپنی الگ شناخت بنائی، وہ بھی دوسروں کی طرح روایتی طور پہ اپنے والد کے تاریخی کردار کو سیاست کی آڑ میں کیش کروا سکتے تھے لیکن انھوں نے اصولوں کی سودے بازی نہیں کی ،19 جولائی 1947 کو قرارداد الحاق پاکستان محلہ آبی گزر سری نگر میں غازی ملت کے گھر میں پاس ہوئی، 24 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے پلندری سدھنوتی کے مقام جونجال ہل میں باغی انقلابی حکومت کا قیام غازی ملت نے عمل میں لایا 28 اکتوبر 1949  معاہدہ کراچی جیسے تاریخی اقدامات کئے سردار خالد ابراہیم خان نے سیاست میں جو اصول طے کئے وہ آج بھی آزاد کشمیر کی لیڈر شپ کیلئے مشعل راہ ہیں سردار خالد ابراہیم خان کشمیر کے واحد سیاسی راہنما تھے جو کشمیر کی تاریخ کی بھرپور جانکاری رکھتے تھے انہوںنے  عوام کے حق میرٹ اور انصاف کی بحالی کیلئے لا زوال جدو جہد کی یہی وجہ ہے کہ جب ماضی میں 485ملازمین کو غیر قانونی بھرتی کیا گیا اسی طرح ہائیکورٹ کے پانچ ججز کی خلاف میرٹ تقرریاں کی گئیں  ان سب کو گھر جانا پڑا وہ درویش صفت انسان تھے جو کہا کر دکھایا، سردار خالد ابراہیم خان جیسے لوگ صدیوں بعد ہی کہیں پیدا ہوتے ہیں تحریک آزادی کشمیر سے وابستگی کا انداز ہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر کی آزادی کیلئے ہمیں طویل جدعجہد کرنی پڑے گی حق خود ارادیت کی منزل ضرور حاصل ہو آئیر لینڈ کو آزادی کیلئے چار سو سال جدو جہد کرنے پڑی جبکہ ہمیں ستر سال سے زائد عرصہ ہوا ہے ، سردار خالد ابراہیم خان کشمیر کی سیاست کے ایک درخشاں آفتاب و ماہتاب تھے، اس طرح ریاست کی طاقتور آواز 4نومبر 2018کو ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئی حق وسچ کا باب بند ہو گیا ایک عہد تمام ہو۔

ای پیپر دی نیشن