سید مجاہد علی کا نام علمی ادبی اور صحافتی حلقوں کے لئے کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے حالات حاضرہ اور ملک کے بدلتے ہوئے حکومتی سیاسی ثقافتی اور معاشی منظر نامے پر ان کی گہری نظر اور قلم پر مضبوط گرفت ہے اداریہ نویسی میں انہیں خاص ملکہ ہے۔ سال 2014 سے 2023 کے درمیان لکھے جانے والے اداریوں کو عکس پبلیشرز کے محمد فہد نے دس ضخیم جلدوں پر مشتمل کتابوں کا جو دیدہ زیب سیٹ شائع کیا ہے اس سے جہاں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ نئے چیلنج قبول کرنے والے ایسے پبلشر ہیں جو تجارتی نفع نقصان سے قطع نظر کتاب کلچر کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں اور ایسے دور میں جب لوگ جدید ٹیکنالوجی کے دور کی آ ڑ میں موبائل سے دور اور کتاب سے دور ہوتے جا رہے ہیں ایسے میں معیاری اور اچھی کتابوں کی اشاعت اور ترویج و ترقی کے لئے مخلصانہ کاوشیں کرنے والے یقینا لائق تحسین اور قابل تقلید ہیں
سید مجاہد علی کی یہ شاندار کاوش اس بات کی بھی گواہی ہے کہ دیار غیر میں رہتے ہوئے بھی ان کا دل اپنے وطن پاکستان کے لئے دھڑکتا ہے اور ملک کے ابتر حالات پر افسردہ بھی ہوتا ہے انہوں نے ایک اچھے نباض کی طرح پاکستان کے مسائل کو عیاں کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حل کی رائیں بھی تلاش کی ہیں جو ایک اچھے اداریہ نویس کی خوبی ہے ایک وقت تھا کہ اخبارات کے ادارئیے چشم کشا ہوتے تھے اہل فکر و نظر ان چشم افروز اداریوں سے نہ صرف آ گاہی حاصل کرتے تھے بلکہ یہ اہم ملکی مسائل کے حل کے لئے بھی اپنا اہم کردار ادا کرتے تھے محترم مجید نظامی حمید نظامی کے ادارئیے ملکی مسائل کی درست نشاندہی کرتے نظر آ تے تھے جس میں منزل کی سمت کا تعین اور مسائل کا حل ملتا تھا آ ج بھی محترم سعید آ سی اور مجیب الرحمٰن شامی کے ادارئیے صحافتی اقدار کے آ ئینہ دار ہیں اسی طرح سید مجاہد علی نے بھی اداریہ نویسی میں پاکستان کے ان سلگتے ہوئے مسائل کی نشان دہی کی ہے جو آ ج بھی ہمیں منزل تک نہیں پہنچنے دے ریے اس کی ایک وجہ تو یہ صورت بھی ہو سکتی ہے کہ نہ تو ہم نے منزلوں کے حصول کے لئے درست راستے کا چناو کیا اور نہ ہی کسی مخلص رہبر و رہنما کا انتخاب اس لئے
ایک عرصے سے ہم نے منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلا والے حالات سے دوچار ہیں
سید مجاہد علی کے اداریوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت اور دوچند ہو گئی ہے کیونکہ کئی سالوں سے ہم ایک ہی جگہ پر کھڑے ہیں ہمارے مسائل حل ہونے کی بجائے اور گھمبیر اور پیچیدہ ہوتے چلے جا رہے ہیں ہر کوئی پاکستان میں اپنا حصہ ڈالنے کی بجائے اپنا حصہ بقدر جثہ نکالنا چاہتا ہے۔
اسی فکر و سوچ کے در وا کرتے ہوئے جب ہم سید مجاہد علی کے اداریوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری ملاقات ایک بالغ نظر وسیع مطالعہ اور عمیق مشاہدہ رکھنے والے قلمکار سے ہوتی ہے انہوں نے کئی سال کی امانتوں کو قلم اور قرطاس کے ذریعے اس نسل تک منتقل کرنے کی اپنے تئیں ایک کامیاب کوشش کی ہے جس کے ہاتھوں میں اب اس ملک کا مستقبل اور زمام کار ہے۔
انہوں نے سال اسی اور نوے کی دہائی میں ماہنامہ کاروان اوسلو ناروے میں شائع ہونے والے علامتی اداریوں کو گفتگو کی کتابی صورت دے دی ہے
یہ ضخیم جلدیں ان کی کمال محبت سے پاکستان میں مقیم ان کے بھائی کی وساطت سے مجھ تک بھی پہنچی ہیں جس کے لئے انتہائی ممنون ہوں یہ اداریے نہ صرف صحافتی حلقوں کی رہنمائی کے لئے مشعل راہ ہیں بلکہ تاریخ کے طابعلموں اور پاکستانی حکومت و سیاست کے اوراق سے آ گاہی کے لئے مختلف اداروں اور یونیورسٹیوں کی لائیبریری کی زینت بننے کے قابل ہیں تاکہ ہماری نئی نسل اپنے ملک کے مسائل سے آ گاہی حاصل کرے یہ ملک جو سارے موسموں اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اس کا حسن ہمارے بے حسی اور بے توجہی کا۔ شکار ہے سید مجاہد علی نے مختلف ادوار کے مسائل حکومت سیاست دانوں کے کردار اور مختلف معاشرتی اور سماجی رویوں کی عکاسی کی ہے ملکی معیشت کی خرابی کے ذمہ داروں کا تعین کیا ہے ملک میں راج کرتی بھوک غربت حکومتی اور سیاسی انحطاط اخلاقی گراوٹ سماجی برائیاں قومی خزانے کی مال مفت دل بے رحم والی پالسی اقربا پروری وراثتی سیاست آ ئی ایم ایف کا شکنجہ عالمی سیاست غرض ہر اہم موضوع پر ان کا قلم اپنی جولانیاں دیکھاتا نظر آ تا ہے ایک اچھے اداریہ نویس کی حیثیت سے انہوں نے ریاست کے اہم ستون صحافت پر بھی خوب لکھا ہے آ ذادی صحافت کے حوالے سے لکھے گئے ان کے ادارئیے ایک گراں قدر سرمایہ ہیں ۔
امانتیں کئی سال کا انتساب کاروان جمہوریت کے درماندہ انسانوں کے نام ہے
کبھی جمہوریت یہاں آ ئے
یہی جالب ہماری حسرت ہے کتاب کا عنوان شاعر بے مثال منیر نیازی کے اس خیال کا مرہون منت ہے ۔
وہ قیامتیں جو گزر گئیں
تھیں امانتیں کئی سال کی
سید مجاہد علی صاحب کی ان امانتوں کا تقاضا اور امانت داری اسی میں ہے کہ ادب اور کتاب دوست ان سنجیدہ موضوعات پر نہ صرف سوچ بجار کریں بلکہ ان مسائل کے حل کے لئے دامے درمے سخنے اپنا بھرپور کردار بھی ادا کریں۔
٭…٭…٭