بار ایسوسی ایشن گوجرانوالہ اور مقامی پولیس 

یہ صرف کرکٹ کا ہی معاملہ نہیں ہمارا پورا سماج زوال مسلسل کا شکار ہے۔ زوال جب کسی سماج کا رخ کرتا ہے تو اس سماج کیلئے ممکن نہیں رہتا کہ وہ اس میں کمال کے چند جزیرے آباد کر سکے۔ لیکن جب سماج میں کسی فرد یا طبقے کو اختیار یا ہتھیار میسر آجائے پھر تو وہ زوال میں پورا کمال کر دکھاتا ہے۔ کالم کا موضوع پولیس ہے۔ 

فیض نے اپنی پنجابی نظم ’’ربّا سچیا‘‘میں اپنے دیس کے انسانوں پر مظالم کا ذکر کرتے ہوئے ’’دھاندلی مال پٹوار‘‘سے پہلے ’’دھونس پولیس سرکار‘‘کا ذکر کیا ہے۔ عوامی شاعر عبیر ابوذری بھی پولیس کی ’’بے راہ روی‘‘کی شکایت سے گریز میں ہی عافیت بتاتے ہیں۔ 
پلس نوں آکھاں چور فائدہ کیہہ
مگروں کرداپھراں ٹکور فائدہ کیہہ 
ایک واقعہ پولیس کے سابق سر براہ راؤ رشید نے لکھا ہے۔ اس میں آپ کو پولیس کا مزاج سمجھنے میں پوری مدد ملے گی۔ وہ لکھتے ہیں ’میں ان دنوں زیر تربیت اے ایس پی تھا۔ کہیں دورے پر جا رہے تھے۔ دوسرے گھوڑے پر میرے ساتھ ایک حوالدار تھا۔ راستے میں مجھے پیاس محسوس ہوئی۔ میں نے حوالدار کو بتایا۔ اس نے اپنے گھوڑے کو ایک خانہ بدوش کی بستی کی طرف موڑ دیا۔ پھر انہیں درشت لہجے میں پینے کیلئے پانی کا بندوبست کرنے کو کہا۔ انہوں نے جلدی سے سلور کا ایک برتن دھو مانجھ کر اس میں ہمیں پانی پیش کیا۔ پہلے میں نے اپنی پیاس بجھائی، پھر حوالدار نے پانی پیا اورخالی برتن گالی بکتے ہوئے اس کے منہ پر دے مارا۔ اب ہم وہاں سے چلتے بنے۔ مجھ محکمہ پولیس میں نووارد کیلئے یہ سب کچھ عجیب سا تھا۔ میں نے حوالدار سے پوچھاکہ اس نے ایسا کیوں کیا ہے؟ میں نے مزید کہا۔ اول تو ہمیں ان کا پانی پلانے پر شکریہ اداکرنا چاہئے تھا اگر یہ ممکن نہیں تھا تو کم از کم ان کا خالی برتن ہی انہیں آرام سے واپس کر دیتے۔ اس پر حوالدار بولا۔سر! ان لوگوں کا دماغ ٹھکانے رکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم ان سے ملائم لب و لہجہ اختیار کرتے تو ان کے دماغ میں یہ فتور آنا لازم تھا کہ جیسے انہوں نے ہمیں پانی پلا کر کوئی احسان کیا ہے۔ حالانکہ ان پر ہماری خدمت فرض ہے‘۔ 
پولیس ہمارے نظام قانون کا اہم جزو ہے۔ آزادی کے پون صدی بعد بھی ہماری پولیس اسی ڈھانچے اور ضابطے کے تحت کام کر رہی ہے جو 1857ء کی جنگ آزاد ی کچلنے کے تین برس بعد برطانیہ نے اس سوچ کے تحت قائم کیا کہ یہاں آئندہ کسی کو سر اٹھانے کی ہمت نہ ہو۔ جب معاملات ایسٹ انڈیا کمپنی سے تاج برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لئے تو 1860ء میں ایک پولیس کمیشن بنایا گیا۔ اْس نے 1861ء  میں پولیس رولز بنائے۔ ہماری پولیس کی ویب سائٹ پر آج بھی وہ ’’اعلان مسرت‘‘موجود ہے کہ ہم وہی پولیس ہیں جن کی بنیاد 1861ء میں رکھی گئی۔ دراصل ہمارا نظام پولیس آزاد شہریوں کیلئے تھا ہی نہیں۔یہ محکوم اور غلام رعایا کیلئے بنایا گیا تھا۔ اس کے بنیادی مقاصد میں کہیں اصلاح احوال یا انصاف نہیں تھا۔ اس بندوبست کا بنیادی ہدف یہ تھا کہ رعایا کو ایسے قانون کے ڈنڈے سے ہانکا جائے کہ اس کے ہوش ٹھکانے آجائیں اور آئندہ یہ بغاوت تو کیا سر اٹھانے کا بھی نہ سوچے۔ 
گوجرانوالہ میں چند روز سے مقامی پولیس اور مقامی بار ایسوسی ایشن کے درمیان شدید چپقلش جاری ہے۔ ایک فریق کے پاس سرکاری اختیار ات ہیں جنہیں وہ غیر قانونی حد تک استعمال میں لا رہی ہے۔ دوسری جانب نوجوان وکلاء ہیں جو صرف جوش، جنون اور جذبہ سے مسلح ہیں۔ یہ واقعہ ممبر بار عادل اعظم کے گلی محلے کے ایک بدمعاش کے ہاتھوں فائرنگ سے شدید زخمی ہونے سے شروع ہوا۔ زخموں کے باعث عادل اعظم کی ایک ٹانگ کاٹنی پڑی۔اب وہ زندگی موت کی کشمکش میں وینٹیلیٹر پر ہے۔ اس سلسلے میں ملزم کی گرفتاری نہ ہونے کی وجہ سے وکلاء نے ایک احتجاجی جلوس نکالا۔ یہ جلوس مقامی سی پی او آفس تک پہنچا۔ پورے سماج کے زوال کے باعث وکلاء کا طبقہ بھی قابل رشک حد تک مہذب، شائستہ اور با اخلاق نہیں رہا۔ کالم نگار جلوس میں شامل تھا۔ وہ اپنی کمزور صحت کے باعث اتنا پیدل چلنے سے لاچار تھا۔ سو وہ اپنی گاڑی میں سوار ہمراہ چلتا رہا۔ سی پی او آفس کے باہر نوجوان وکلاء کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ لیکن گندی بات یہ ہے کہ ان کی زبان گندی تھی۔ایک انتہائی شریف خاندان کے سپوت امیدوار کے منہ سے گندی گالی سن کرکالم نگار کیلئے وہاں کھڑاہونا مشکل ہو گیا۔ وکلاء کو احتجاج کیلئے صرف قانونی اور اخلاقی راستہ اپنانا چاہئے۔ کالم نگار جلوس سے باہر نکل آیااور وہاں سے چل پڑا۔ جلوس میں البتہ صدارتی امیدوار عرفان یوسف رائے نے انتہائی مہذب بات کی۔ وہ صرف گلہ گزار تھا کہ ملزم کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا اور سیشن جج اور سی پی او نے ہمارے زخمی وکیل بھائی کی عیادت بھی نہیں کی۔ 
اس ملک کا خواب دیکھنے والے اور اسے شرمندہ تعبیر کرنے والے دونوں معزز وکیل ہی تھے۔ ایک وکیل کا مقام، عزت لندن کی ایک عدالت کے برآمدے میں پیش آنے والے اس واقعہ سے عیاں ہے۔ ’ایک بیرسٹر اپنے موکل چور کو بری کروانے میں کامیاب ہو گیا۔ دونوں کمرہ عدالت سے باہر برآمدے میں آگئے۔ چور نے شکریہ ادا کرنے کے لئے مصافحہ کیلئے اپنا ہاتھ بیرسٹر کی طرف بڑھایا۔ بیرسٹر دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے بولا۔ میں تمہیں ٹیکنیکل گراؤنڈز پر بری کروانے میں ضرور کامیاب ہو گیا ہوں لیکن اس طرح تم اتنے بھی باعزت نہیں ہو گئے کہ ایک بیرسٹر سے ہاتھ ملا سکو۔
کالم تمام کرتا ہوں۔دیکھئے صاحب! گالی کا جواب صرف گالی ہو سکتا ہے۔اس سے زیادہ ہرگز نہیں۔ ان تمام پولیس افسران کو نوکری سے برخاست کر دینا چاہئے جنہوں نے اپنے سرکاری منصب اور اختیار کا سہارا لے کر وکلاء کی گرفتاری میں چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا۔گرفتاری کے بعد پھر کئی وکلاء کو الٹا ننگا لٹکا کر شدید تشدد کیا، ان کی ویڈیوز بنائی گئیں۔ پولیس والے وہاں وحشیانہ انداز میں دانت نکالتے رہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب اس سلسلے میں فوری ایکشن لیں۔ ورنہ کچھ تو ضرور ہو کر رہے گا۔اتنا غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی تشدد کا ہضم ہونا ممکن نہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن