مہاراجہ رنجیت سنگھ سے مریم نواز تک کا پنجاب

صوبائی وزیر برائے اقلیتی امور پنجاب سردار رمیش سنگھ اروڑا نے گوجرانوالہ میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی جائے پیدائش پر ا ن کی 244ویں سالگرہ کا کیک کاٹنے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ایسٹر، بیساکھی اور دیوالی جیسی تقریبات میں شرکت پاکستان میں رواداری، ہم آہنگی، اور مختلف مذاہب کے احترام کی ایک بہترین مثال ہے۔ ان تقریبات میں شامل ہونے کا مقصد پاکستان کے آئین کے اس اصول کی تجدید کرنا ہے جس کے تحت ہر شہری کو آزادانہ طور پر اپنے عقیدے اور ثقافت کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دور (1799ء-1839ء)  سکھ سلطنت کے عروج کا زمانہ تھا، جس میں پنجاب اور گرد و نواح کے علاقوں پر سکھ حکمرانی قائم ہوئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مہا راجہ رنجیت سنگھ نے مئی 1799ء  میںصرف انیس برس کی عمر میں لاہور پر قبضہ کرکے اسے اپنی راجدھانی بنایا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کو ایک روشن خیال اور منصف حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، ان کی حکمرانی میں مذہبی رواداری اور باہمی احترام کا چلن عام تھا، جس کے باعث ان کا دور آج بھی ایک مثال سمجھا جاتا ہے۔مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی ریاست میں مذہبی تفریق کے بجائے انصاف، برابری اور ہم آہنگی کو فروغ دیا۔ وہ خود سکھ مت سے تعلق رکھتے تھے، مگر انہوں نے کبھی اپنے مذہب کو دوسروں پر مسلط نہیں کیا۔ انکی دور ِحکومت میں مسلمان، ہندو اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو انکے مذہبی عقائد کے مطابق آزادی حاصل تھی ، اور ریاستی امور میں بھی انکی شمولیت کو یقینی بنایا جاتا تھا۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں نہ صرف گوردواروں بلکہ مساجد اور مندروں کی بھی دیکھ بھال کیلئے سرکاری فنڈ فراہم کیے جاتے تھے۔تقسیم ہندوستاں کے وقت  پنجابی دو حصوں میں ضرور بٹ گئے ۔لیکن دونوں طرف بسنے والے لوگوںکے دلوں میں ایک دوسرے کیلئے محبت موجود رہی  ۔یہ یقینا پہلی بار ہوا ہے کہ پنجاب پر حکومت کرنے والے بہادر سپوت کے جنم دن کے موقع پر ان کی جائے پیدائش پر کیک کٹنگ تقریب کا اہتمام  سرکاری سطح پرکیا گیا ہے ۔ صوبائی وزیر ، ضلعی انتظامیہ،سول سوسائٹی اور میڈیا کی کثیر تعداد نے اس موقع پرخوشی کا اظہار کیا۔تین صدیاں پہلے بننے والی حویلی کولاہور والڈ سٹی اسکی اصل حالت میں بحال کرنے میں مصروف عمل ہے ۔ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ نوید احمد بہت پرجوش اور جذبہ خدمت سے سرشار نظر آتے ہیں ۔انہیںتعینات ہوئے ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا لیکن وہ اپنی ٹیم کے ساتھ ضلع کی بہتری کیلئے بھر پور کوشش کرتے نظر آرہے ہیں۔ اُمید ہے وہ نہ صرف سکھ قوم کے بہادر سپوت اور کابل سے دلی تک حکومت کرنے والے واحد پنجابی حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی جائے پیدائش، بلکہ شہر میں موجود دوسری تاریخی عمارتوں کی بحالی پر بھی برابر نظر رکھیں گے۔ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ نے کیک کٹنگ تقریب میں بڑے خوبصورت پنجابی لہجے میں گفتگو کی اور دنیا بھر سے آنے والے سکھوں کو یقین دلایا کہ اس شہر میں انہیں صرف محبت ہی ملے گی۔سابق کمشنر گوجرانوالہ اور موجودہ سیکرٹری انڈسٹریز احسان بھٹہ صاحب کے بعد نوید احمد ایسا افسر دیکھا ہے کہ جسے اپنی ثقافت اور زبان سے بہت محبت ہے ۔کچھ سال پہلے ہم نے ضلعی انتظامیہ گوجرانوالہ اور سائبان تنظیم کے اشتراک سے بارہ دری مہاراجہ رنجیت سنگھ شیرانوالہ باغ کے احاطے میںمنعقد ہونے والے مشاعرے میں احسان بھٹہ صاحب کو شرکت کی دعوت دی، توخوش اخلاق اور پر جوش بھٹہ صاحب نے فوراً حامی بھر لی۔ ساتھ ہی گویا ہوئے کہ راجہ صاحب! پھر پگڑی کے ساتھ دھوتی بھی پہن کے آئیے گا ۔کچھ دن پہلے بھٹہ صاحب کا میسج آیا جس میںاحسان بھٹہ صاحب نے ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ نوید احمدکی قابلیت، صلاحیت اور جذبے کی بات کریں تو ہمیں یقین سا ہوگیا کہ نوید احمد صاحب میں واقعی بہت سی خوبیاں موجود ہوں گی۔اور اپنی تعیناتی کے دوران ڈپٹی کمشنر نوید احمد شہر کی بہتری کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔شہر صاف ستھرا ہوگا ۔ مردے کھانے والی گرجیں کوچ کر جائیں گی اورنکھری نکھری ،اُجلی اُجلی فضائوں میںمحبت کے گیت گانے والے پرندے پھر سے لوٹ آئیں گے۔شیرانوالہ باغ کے احاطے میں موجودبارہ دری کے چبوترے سے بڑی بڑی سیاسی اور سماجی تحریک کا آغاز ہوا کرتا تھا۔ قائد اعظم،محترمہ فاطمہ جناحؒ, مولانا عطااللہ شاہ بخاری اور پنڈت نہرو جیسے سیاستدان اس بارہ دری پہ عوامی اجتماعات سے خطاب کر چکے ہیں۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں پنجاب کا شمار دنیا کے سو فیصد تعلیم یافتہ ملکوں میں ہوتا تھا ۔کمپنی سرکار نے بنگال پر سب سے پہلے قبضہ کیا اور سب سے آخر میں پنجاب میں انہیں کامیابی نصیب ہوئی۔ پنجابیوں کی مزاحمت کا بدلہ انگریز سرکار نے کچھ یوں لیا کہ ایک طرف پنجابی زبان پر پابندی لگادی، پنجابی قاعدے بزور طاقت جمع کر لیے گئے اور دوسری طرف پنجابی قوم کی شان’’پگ‘‘ ہوٹلوں میں کام کرنیوالے ملازموں کے سر پہنا دی۔ایک مدت کے بعد مریم نواز ایسی وزیر اعلی پنجاب بن کے سامنے آئی ہیں جو اپنے پنجابی ہونے پر فخر کرتی ہیں۔ پنجابی روایات، اقدار ، ثقافت اور زبان کے فروغ کیلئے پرجوش ہیں ۔کچھ دن پہلے پنجابی زبان پڑھانے کا بل پنجاب اسمبلی سے پاس ہوا ہے ۔اب ایک انتظامی حکم کے تحت پنجاب بھر کے ہوٹلوں،شادی ہالوں اور دیگر تقریبات کے مقامات میں ملازموں کے سر پگ اور سرکاری دفتروں میں کام کرنے والوں کے سر پر نماز والی ٹوپی پہننے کے عمل کو روک دیا جائے۔ اسکی بجائے پنجاب سرکار اپنے وزیروں، مشیروں ، ممبران اسمبلی اور آفیسرزکو پگ پہننے کی ترغیب دے۔وزیر ،مشیر اور سرکاری آفیسرز پنجابی رنگ میں رنگے نظر آئینگے تو کوئی بھی پنجابی زبان کوانپڑھوں کی زبان کہنے کی کوشش نہیں کریگا اگر ہم نے ملک سے گروہ بندی ,فرقہ پرستی  اور نفرت کو ختم کرنا ہے تو اس کیلئے ہمیں بچوں کووارث شاہ ,بھلے شاہ‘ شاہ حسین‘ سلطان باہو‘ بابا فرید‘ بابا گرونانک اور میاں محمد بخشؒ کے کلام کو نصاب کا حصہ بنانا پڑھے گا ۔

ای پیپر دی نیشن