”آنگن میں بیٹیاں دفنا لینا“

Oct 04, 2010

سفیر یاؤ جنگ
مکرمی! پھر یوں ہوا کہ زندگی نے اپنے بوسیدہ دامن کو سمیٹا اور رخت سفر باندھ کر چلی اور اس کے بعد ایسا ماتم اٹھا کہ ہر اپنے پرائے کی آنکھیں نم کرتا چلا گیا۔ کوئی مر گیا ہے کیا؟ کسی دیوانے کا سوال ”ہاں! زندگی مر گئی ہے“۔ جی ہاں زندگی ہی تو مر گئی ہے کسی کی آنکھوں میں کسی کے دل میں اور کسی کی روح میں۔ مجھے نہیں معلوم کیوں لیکن عافیہ کے کیس کا فیصلہ سنا تو ثانیہ کی شادی آنکھوں میں گھوم گئی۔ ہم کیسی قوم ہیں؟ ہم بظاہرکیسے باغیرت لوگ ہیں؟ ہم کتنے اونچے شملے اور دستاریں سروں پر سجا کر گھومتے ہیں مگر درحقیقت ہماری غیرت کتنی مسخ ہو چکی ہے۔ یہ بات اس فیصلے سے کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ ثانیہ اور شعیب کی شادی پر ابھی گرد نہیں پڑی، زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ہم بہت دھوم دھام سے بینڈ باجوں اور سونے کے تاج لے کر دشمنوں کے دیس سے ”بہو“ لینے گئے تھے۔ وہ بہو جس نے عوام کی محبت کے جواب میں کہا کہ ”میں پاکستان کی بہو نہیں بلکہ شعیب کی بیوی ہوں“ ہم نے جتنی کوششیں ”بہو“ حاصل کرنے کے لئے کیں اس سے نصف بھی اپنی بیٹی کو چھڑوانے کے لئے نہ کر سکے اور جتنے جوش اور مسرت کے ساتھ ہم اپنی نام نہاد بہو کو تاج پہنانے پہنچے تھے اسی قدر بوگس اور ٹھس طریقے سے ہم نے اپنی بیٹی کے مقدمے کی پیروی کی۔ آج رونے کو جی چاہتا ہے مگر سمجھ نہیں آتا کہ کس کو روئیں.... اپنی ذہین فطین نیورو سرجن بیٹی عافیہ کو لال مسجد میں زندہ جل مرنے والی بیٹیوں کو ان ہزاروں لوگوں کو جو آج بھی جانے کہاں قیدوبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں یا پھر اپنے مردہ ضمیر کو روئیں کہ جن قوموں کے ضمیر مر جاتے ہیں ان کے پاس تو رونے والی آنکھ بھی نہیں رہتی۔ خیر اب وقت بدل گیا ہے۔ (رابعہ ثنا) ڈیوس روڈ لاہور
مزیدخبریں