یہ کیسا دستور حکمرانی ہے؟ آئین اور قانون کی وزارت کے ڈاکٹر بابر اعوان نے پارلیمنٹ کی ایوان بالا میں ایک ترمیمی آرڈیننس پیش کیا ارکان سینٹ نے اس پر باقاعدہ احتجاج اور واک آوٹ کیا جس میں حکمران پارٹی کو اپنے سینیٹر رضا ربانی بھی شامل تھے اور اس دستور حکمرانی کے چیف ایگزیکٹو قومی اسمبلی میں اعلان کر رہے تھے کہ ”چیف ایگزیکٹو تو میں ہوں کوئی آرڈیننس میری ایڈوائس کے بغیر جاری نہیں ہو سکتا اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو درست کر لیا جائے گا وہ آرڈیننس ان کو وزیر قانون اور وزارت قانون نے تیار کیا تھا اور سولہ ستمبر کو ان کو صدر نے اس کی منظوری تھی اور انہیں یعنی یوسف رضا گیلانی کو اس کے بارے میں کوئی علم ہی نہیں تھا؟ مان لیں؟ ان کی وزارت قانون کا بنایا اور صدر کا 16 ستمبر کو منظور کیا ترمیمی آرڈیننس یکم اکتوبر کو وزیر قانون نے سینٹ میں منظوری کیلئے پیش کر دیا تھا اور اس سب کچھ کے بارے میں انہیں نہ کوئی علم تھا اور نہ ہی ان مسٹر چیف ایگزیکٹو کی اس میں کوئی ایڈوائس شامل تھی؟ اگر ایسا تھا ان کی چیف ایگزیکٹو کےلئے تو مغفرت کی دعا لازم ہے اس ملک کے عوام پر اس قومی کہلانے والی اسمبلی کے ارکان میں سے کسی ایک نے بھی ان سے یعنی پیر اور گیلانی سے پوچھا کیوں نہیں تھا کہ تمہاری ایڈوائس کے بغیر یہ جو ترمیمی آرڈیننس جاری بھی ہو گیا ہے اور سینٹ میں پیش بھی کر دیا گیا ہے اس کے بارے میں آپ تک کوئی خبر کیوں نہیں پہنچی تھی؟ آپ کی باخبری پر کہاں تک اعتماد کر سکتی ہے قوم اور اس نمائندگی کی دعویدار یہ اسمبلی؟ ایسی زرخور اسمبلی کیلئے تو دعائے مغفرت بھی قومی جرم ہے آپ کو یاد ہوگا کہ اسی قومی اسمبلی نے جاگیرداری کے خاتمہ کیلئے چند ہفتے ہی پہلے ایک متفقہ فیصلہ بھی سنایا تھا اور این آر او جمہوریت کے مالک مختار نے روز رفتہ بدین میں فرمایا تھا کہ جاگیرداری کے خاتمہ کی بات کرنے والے سیاسی یتیم ہیں۔ اپنی منظور کردہ اس قرارداد کے حوالے سے اور اپنے متفقہ قائد ایوان سید اور گیلانی یوسف رضا گیلانی کی اس عبرتناک بے خبری کے حوالے سے تو یہ اسمبلی واقعی سیاسی یتیموں کی ہی اسمبلی ہے۔ یعنی سیاسی یتیموں کی قومی اسمبلی والے پوچھ سکتے ہیں اس قومی سیاسی یتیم خانہ کے ارکان شرکان آصف علی زرداری سے کہ آپ نے ہم سب کو سیاسی یتیم کیوں بنا دیا ہے؟ ہماری متفقہ قرارداد کی توہین کیوں کی ہے؟ دیکھیں گی۔ پوچھے گا کوئی مسٹر حزب اختلاف ہی کہ
یہ کیسا دستور حکمرانی ہے تیری شاہی میں
یہاں تو سچ سننے کو ترستے ہیں کان رعایا کے
وہ جو این آر او شاہی کو لانے اور بچانے والے ہیں وردی شاہ سے بے وردی شاہ ہو کر اقتدار اور اختیار سے فارغ البال ہو چکے پرویز مشرف وہ لندن میں بیٹھ کر اس این آر او کیلئے قوم سے معافی مانگ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ”آج پاکستان کی دھرتی رو رو کر کہہ رہی ہے مجھے بچاو“ بے وردی شاہ جی قوم کو معاف بھی کر دے تو یہی تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی این آر او کرنے والوں کو اتنا احمق وردی شاہ کہ کچھ لوگ کہیں اور وہ این آر او کر لے؟ کیوں نہیں بتائے انہوں نے ان احمقوں کے نام اس دھرتی کے باسیوں کو؟ اس دھرتی کو اور اس کے باسیوں کو اس مال زار تک پہنچا دینے جس میں قومی ہونے کی دعویدار اسمبلی کے متفقہ چنے چنائے قائد ایوان کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے وزیر قانون نے تو نیب کے چیئرمین کے اختیارات اپنے قبضہ میں لینے کا آرڈیننس بنا اور صدر مملکت سے منظور بھی کرا لیا ہوا ہے مگر سوال یہ بھی ہے کہ این آر او شاہ جی قبلہ این آر او زدگان اور ان کے وزیر قانون اپنے ہی بنائے بنوائے چیف ایگزیکٹو کو ایسے معاملات میں اعتماد میں لینے کے قابل کیوں نہیں سمجھتے؟ اس سید اور گیلانی یوسف رضا کو جو پیران پیر کی نسل سے ہونے پر ہر کسی کو اعتماد میں لینا اپنا مرض اولین سمجھتا ہے۔ اتنی بداعتمادی؟ اتنی بے وقفی جمہوریت کے چیف ایگزیکٹو کی؟ بے وردی شاہ جی فرما رہے تھے کہ ”میاں نواز شریف دماغ کے معاملے میں فارغ البال ہیں ان کے دو ادوار کے علاوہ میں بطور چیف آف آرمی سٹاف اس کا گواہ ہوں“ مگر آپ بے وردی شاہ جی؟ آپ کے دماغ سے فارغ البال ہونے کی گواہی تو ہر دوسرے روز سید اور گیلانی دے دیتے ہیں اپنے قول و فعل سے آپ دماغ سے فارغ البال نے ہوتے تو کر سکتے تھے آپ این آر او؟ آپ نے این آر او نہ کیا ہوتا تو پہنچا سکتا تھا کوئی سید اور گیلانی یوسف رضا کو بے خبری اور بے وقعتی کی ایسی حالت جن پر بے چاری جمہوریت بھی رو رہی ہے قومی اسمبلی کے ارکان آپ کے دور میں زیادہ یتیم و مساکین ہوا کرتے تھے یا آپ کو جانشین این آر او شاہ جی کی شاہی میں زیادہ باوقار یتیم و مساکین ہوتے ہیں اس بارے میں تو اختلاف ہو سکتا ہے مگر آپ کے دماغ و ماغی سے فارغ البال ہونے سے تو چودھری شجاعت حسین بھی اختلاف نہیں کر سکتے عوام نے میاں نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ دیا اور وہ ملک اور اس کے عوام کو آپ کے حوالے کرکے جدہ کے شاہی محل میں جا مکیں ہوئے تھے اور آپ ملک اور اس کے عوام کو این آر او شاہ کے حوالے کرکے لندن جا بیٹھے ہیں اور فتویٰ جاری فرما رہے ہیں کون ہے اس ساری حالت عوامیہ گیلانیہ کے ذمہ دار؟ این آر او کرنے والے اور کرانے والے ہی ہیں جن میں سرفہرست آپ ہیں بے وردی شاہ جی‘ بے نظیر ڈیل والوں نے کیا پایا سب دیکھ رہے ہیں ملک اور اس کے عوام بھگت رہے ہیں دماغ سے فارغ البالی والوں نے کیا کمایا؟ وہ بھی سب دیکھ رہے ہیں مگر حکمرانوں کی اس دماغ سے فارغ البالی کی سزا تو سب سے زیادہ عوام کو اور ان کے ملک کو ہی بھگتنا پڑتی ہے اور پڑتی آرہی ہے۔ یہ ہماری دھرتی تو بلاشبہ رو رہی ہے ماضی اور حال کے حکمرانوں کی دماغ سے فارغ البالی پر کس کا سینہ چاک چاک ہے ڈرون حملوں سے اور نیٹو کے راکٹوں سے؟ کیا فرق پڑا ہے آپ کے جانے اور این آر او شاہ کو آجانے سے اس دھرتی کو اور اس کے باسیوں کو؟ باوردی آمریت سے بے وردی آمریت؟ این آر او کا عذاب؟ ذلت اور رسوائی؟ بے شرمی اور ڈھٹائی؟