دلکش آوازکے مالک ، اردو اور پنجابی فلموں کے معروف پلے بیک سنگر مسعود رانا کو ہم سے بچھڑے پندرہ برس بیت گئے ہیں۔  

مسعود رانا نوجون انیس سو اڑتیس کو سندھ کے علاقے میرپور خاص میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی فنی زندگی کا آغاز انیس سو پچپن میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے کیا۔ انیس سو باسٹھ میں بحیثیت پلے بیک سنگرانکی پہلی فلم انقلاب بہت مقبول ہوئی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے اردو اور پنجابی فلموں کے مایہ نازگلوکار بن گئے۔
اردو فلموں آئینہ، بندھن، بہارو پھول برساؤ، دلگی اور پنجابی فلمیں باؤجی، دل دیاں لگیاں اور جگری یار میں ان کے گائے ہوئے گیتوں نے فلم انڈسٹری میں تہلکہ مچادیا۔
ان کے گیت ٹانگے والا خیر منگ دا، سجناں نے بوہے اگے چک تان لئی،دل دیاں لگیاں جانے ناں، تمہی تو ہو محبوب میرے نے ان کی آواز کو ملک کے کونے کونے تک پہنچادیا۔
انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں انکے گائے ہوئے ملی نغموں نے جوانوں کو ایک نیا ولولہ بخشا۔ فلم مجاہد کا گیت ساتھیو، مجاہدو جاگ اٹھا ہے سارا وطن اور ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح نے نازک دور میں قوم کو جذبہ حب الوطنی سے سرشارکردیا۔
برصغیرکے معروف گلوکارمحمد رفیع کی آواز سے مماثلت کی وجہ سے مسعود رانا کو رفیع ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ مسعود رانا فلموں\\\" دو مٹیاراں\\\" اور \\\"شاہی فقیر\\\" میں بطور ہیرو بھی جلوہ گرہوئے۔ دلوں کو تسخیر کرنے والی آواز کا مالک یہ گلوکار چار اکتوبر انیس سو پچانوے کو دارفانی سے کوچ کرگیا تاہم ان کے گیتوں کی مقبولیت آج بھی کم نہیں ہوئی۔

ای پیپر دی نیشن