مجید نظامی کے حوالے سے رواں سال ان کے دوستوں اور خود ان کے لئے خوشیوں اور مسرت کا سال ہے۔اسی سال ان کے بطور صحافی 70اور بطور ایڈیٹر پچاس سال مکمل ہوئے ۔ اس خوشی میں گولڈن جوبلی منائی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ پنجاب حکومت نے لارنس روڈ کو ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں ان کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اس کا نام شاہراہِ مجید نظامی رکھ دیا ۔ اب پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں صحافت کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی ہے ۔یوں تو اس ڈگری کو اعزازی کہا گیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کی نظامی صاحب جس اعلیٰ پائے کی شخصیت ہیں ڈگری ان کے لئے اعزاز نہیں بلکہ یہ ڈگری کے لئے اعزازہے کہ نظامی صاحب نے اسے شرفِ قبولیت بخشا۔
مجید نظامی کی شخصیت کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ۔ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے ۔ڈگری دینے کی تقریب میںمقررین، مجاہد کامران ، مجیب الرحمٰن شامی ، کرنل امجد اور فصیح اقبال نے جو کچھ کہا اس پر سرسری اور مختصراًنظر ڈالتے ہیںجس سے نظامی صاحب کی شخصیت کے نمایاں پہلومزید نمایاں ہوتے دکھائی دیتے ہیں؛
” ہمارا میڈیا کاروباری ہے مگر نظامی صاحب نے کبھی کاروبار کی پروا نہیں کی۔ انہوں نے اپنے اخبارات کو نظریاتی رکھا اور یہ سلسلہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ مجید نظامی بے باک ہیں۔ نہ بکنے والے ہیں نہ جھکنے والے ہیں۔ ان کے دامن پر کسی قسم کے سمجھوتے کا کوئی داغ نہیں۔ بڑے جابر لوگ حکمران رہے ہیں مگر مجید نظامی نے ہر دور میں آواز حق بلند کی اور صحت، مال و جان کی پروا نہیں کی۔ مجید نظامی نظریہ پاکستان کے پاسبان کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ مجید نظامی نے جس طرح نظریہ پاکستان کی حفاظت کی نہ تو آج تک کسی نے کی اور نہ کوئی کر سکتا ہے۔
شاید دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہو رہا ہے کہ کسی اخبار نویس کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی گئی ہے اور یہ شرف پنجاب یونیورسٹی کو حاصل ہوا ہے۔ پاکستان میں مجید نظامی جیسا کوئی دوسرا ایسا شخص نہیں جس کے سماجی تعلقات اس سطح کے ہوں اور اس کا اتنا احترام کیا جائے۔ ان سے اختلاف کرنے والے بھی ان کے بہترین کردار کا اعتراف کرتے ہیں۔ جب تک پاکستان موجود رہے گا سلسلہ نظامیہ چلتا رہے گا۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں 4 اخبارات نوائے وقت، کوہستان، جاوداں اور مساوات کے ایڈیٹرز مجید نظامی، خان عبدالوحید خان، بشیر احمد ارشد اور حنیف رامے کے خلاف مارشل لاءکی دفعات کے تحت مقدمات قائم کئے گئے۔ ان ایڈیٹرز کو جنرل یحییٰ خان نے بلایا اور کہا مقدمات کی واپسی مطلوب ہے تو معافی مانگیں۔ اس وقت مجید نظامی کھڑے ہو گئے اور کہا کس بات کی معافی مانگیں؟جس کے جواب میں جنرل یحییٰ خان نے کہا معافی نہیں مانگنی تو مقدمات کا سامنا کریں۔ مجید نظامی نے پوچھا کونسی عدالت میں مقدمہ ہو گا؟ جنرل یحییٰ خان نے کہا فوجی عدالت میں، جس پر مجید نظامی نے کہا فوجیوں کو کیا پتہ اخبار کیا ہوتے ہیں۔ مجید نظامی کا یہ جذبہ سب میں پیدا ہو جائے تو پاکستان کو کبھی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ مجید نظامی کا فلسفہ اور پیغام یہ ہے فوج سرحدوں کی حفاظت کرے اور جمہوریت کا بول بالا ہو۔ ان کی یہ بات تسلیم کر لی جاتی تو آج ملک دو لخت نہ ہوتا اور آج کوئی شخص شیخ مجیب کی طرح 6 نکات پیش کر کے حکومت وقت پر بد اعتمادی کا اظہار نہ کرتا۔ مجید نظامی نے بطور صحافی 70 سال اور بطور مدیر 50 سال یہی پیغام دیا ہے اس کو سمجھ کر اور اس پر عمل کر کے ہم زندہ رہ سکتے ہیں۔ مجید نظامی ترکی کی معروف شخصیت گولن کے فرمان کے مطابق گفتار سے پہلے کردار کا عملی نمونہ ہیں۔ مجید نظامی، حمید نظامی کی فوٹو کاپی ہیںان کے تین بائی پاس ہو چکے ہیں مگر ان کی چہرے کی رونق دیکھیں ، اب بھی جوان لگ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجید نظامی کی ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے کہ استحکام پاکستان اور نظریہ پاکستان کا پرچار کریں۔“۔ مجید نظامی تحریک آزادی کے مجاہد اور غازی بھی ہیں۔ تحریک پاکستان کے پہلے شہید عبدالمالک کے سر پر اینٹ لگی تو مجید نظامی ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ تحریک پاکستان کے پہلے شہید اسلامیہ کالج کے عبدالمالک نے مجید نظامی کے بازﺅں میں ہی جان دی۔ ان کو سنبھالتے ہوئے نظامی صاحب کے کپڑے بھی شہید کے خون سے رنگے گئے۔ لیاقت علی خان نے ان کو مجاہدانہ خدمات پر سند کے ساتھ تلوار عنایت کی۔نظامی صاحب اس واقعہ کو کبھی بھلا نہیں پائے وہ حسرت کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ سعادت ان کے حصے میں بھی آ سکتی تھی۔تحریک آزادی میں انہوں نے قائد اعظم کی قیادت اور مسلم لیگ کے پرچم کے سائے تلے حصہ لیا اس وہ پاکستان کی سیاست میں علامہ اقبال قائد اعظم کی مسلم لیگ کی کارفرمائی دیکھنا چاہتے ہیں۔اسی لئے وہ دھڑوں میں بٹی مسلم لیگوںکے اتحاد کے لئے کوشاں ہیں تاکہ اسے اقبال و قائد کی مسلم لیگ بنایا جا سکے۔مجید نظامی کی ملک وملت کے لئے قربانیوں کا شمار ممکن نہیں ۔ انہوں نے آج بھی کشمیر کی آزادی اور نظریہ پاکستان کے فروغ کو اپنا مشن بنایا ہوا ہے۔ وہ کشمیر کی آزادی تک بھارت کے ساتھ دشمنی کی شدت میں کمی لانے پر کسی صورت تیار نہیں۔یہ ان کی پاکستان سے بے پایاں محبت کا ثبوت ہے۔میری نظر میں مجید نظامی کا سب سے بڑا کارنامہ نواز شریف سے ایٹمی دھماکہ کرانا ہے جس پر میاں نواز شریف تیار نہ تھے ۔محسن پاکستان ڈاکٹر عبداقدیر خان کا کہنا ہے کہ مجید نظامی نواز شریف کو نہ ڈانتے تو وہ دھماکے نہ کرتے ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بیان میں سچائی اس لئے بھی ہے کہ بھارت نے 13 مئی کو دھماکے کئے ۔ بقول ڈاکٹر قدیر خان پاکستانی سائنسدان ایک ڈیڑھ دن کے نوٹس پر دھماکے کر سکتے تھے۔جبکہ ہم نے 28مئی کو بھارت کے دھماکوں کے پندرہ دن بعد دھماکے کئے۔
گولڈن جوبلی اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری
Oct 04, 2012