مجھے اپنی فوج کے جوانوں پہ ہمےشہ فخر رہا ہے کہ جب بھی ملک پہ کوئی آفت نازل ہوئی یہ سینہ سپر ہوکر اپنے ملک کی حفاظت کےلئے میدان عمل میں کود پڑتے رہے خاص طور پر ہمارے کرنل رینک سے لے کر نیچے والے جوانوں نے تو دلےری اور بہادری کی ایسی مثالیں رقم کی ہیں کہ چھمب جوڑیاں کی جنگ تھی یا کارگل کا معرکہ ہر جگہ یہ بڑی بہادری کے ساتھ لڑے اور میدان جنگ میں جام شہادت نوش کر نے کےلئے پےش پےش رہے ان کی دلےری اور بہادری کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے لےکن مجھے ہمےشہ ان کی فوجی قیادت پہ گلہ رہاہے جو اپنی عسکری ذمہ داریوں سے آگے بڑھ کر ملک بچانے اور اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے بہانے سیاست میں ٹانگیں اڑاتے رہے ہیں۔
ہمارے یہ جرنیل بھی عجیب و غریب مخلوق ہیں ان کو ابھی تک یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ انہوں نے جب بھی ملک میں مارشل لاءنافذ کرکے اقتدار پرقبضہ کیا ہے اس سے ملکی سا لمیت کو نقصان ہی پہنچا ہے جنرل ایوب خان نے صنعت کاری کے ساتھ ہی ملک میں رشوت خوری اور کک بیک کمیشن کے کلچرکی ابتدا تو کی ہی تھی مگر انہی کے زمانے میں ستمبر 1965 کی جنگ کے بعد مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی بنیاد رکھی گئی جنرل یحییٰ خان کے زمانے میںبھارت کے ساتھ دسمبر 1971 کی جنگ میں ایک ذلت آمےز شکست کے بعد ہمارے 93 ہزار فوجی جوان بھارت کے قیدی بنے اور مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر ہمےشہ کےلئے بنگلہ دےش بن گیا اس دلخراش واقع پہ ندامت کا اظہار کرنے کی بجائے نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ کہا یہ گیا کہ مشرقی پاکستان ملکی معیشت پر ایک بوجھ تھا اور اس بوجھ کے اترنے کے بعد مغربی پاکستان میں خوشحالی آئے گی مگر آج حالت یہ ہے کہ بنگلہ دےش کی معیشت پاکستان سے کہیں زیادہ مضبوط ہے اسی جنگ کے بعد آزاد کشمیر میں سیاچین گلےشئر اور کارگل کے انتہائی حساس علاقے پاکستان سے چھن کر بھارت کا حصہ بن گئے جنرل ضیاالحق نے تو قائد اعظمؒ کے پاکستان کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا اور یہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ اور ٹھیکےدار بھی بن گئے ً اتحاد تنظیم اور یقین محکم ً کی جگہ ً اتحاد تنظیم اور جہاد فی سبیل اللہ ً نے لے لی اور فوج کے اندر بھی گروپ بندی ہونا شروع ہوگئی جنرل پروےز مشرف پر جو خود کش حملے ہوئے ان میں بھی کچھ ایسے ہی انتہا پسند فوجی افسران شامل تھے جن کو کورٹ ماشل کے بعد موت کی سزائیں دی گئی تھیں جنرل ضیا ہی کے زمانے میں انتہا پسند مذہبی تنظیموں کو فروغ ملا ملک میں ہیروئین اور کلاشن کوف کلچر کا دور شروع ہوا ان کے جرنیلوں نے ڈھےروں کے حساب سے ڈالر اکٹھے کئے مگر سب سے زیادہ نقصان یہ ہوا کہ ملکی وحدت پارہ پارہ ہو گئی لوگ کئی فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوگئے اور اسلام کے نام پر ایسے ایسے قوانین نافذ کئے گئے جن میں بغیر کسی معقول شہادتوں کے اقلیتی فرقوں کو نشانہ بنایا گیا اور ان کا جینا محال ہو گیا۔
بلوچستان کے ناراض سرداروں اور نوجوانوں سے گفت و شنید کے بعد ان کی جائز شکائتوں پر ہمدردی سے غور کرنے کی بجائے ان پر بار بار چڑھائی کرکے وہاں علیحدگی پسند تنظیموں کو جنم دےنے میں بھی ان فوجی حکمرانوں کا کلیدی رول رہا ہے جنرل پروےز مشرف نے تو اگست 2006 میں نواب محمد اکبر خان بگتی کو شہید کرکے علیحدگی پسند تنظیموں کے ہاتھ اور بھی مضبوط کر دیئے جس کی وجہ سے اب بھارت اسرائیل اور امریکہ نے وہاں ایک نیا کھےل شروع کر دیا ہے اور یہ کھلم کھلا ان علیحدگی پسند تنظیموں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔
ملک کو اس تباہی کے دہانے تک پہنچانے کے بعد ان جرنیلوں کو ہوش آجانی چاہئے تھی اور انہیں ہمےشہ کےلئے سیاست میں دخل اندازی سے توبہ کر لےنی چاہیئے تھی مگر ایک حالیہ انٹرویو یں جنرل پروےز مشرف فرماتے ہیں کہ ً اگر ہم ملک بچانے کی کوشش کرتے ہیں تو آئین راستے کی روکاوٹ بن جاتا ہے مگر ملک ہے تو آئین ہے ورنہ ملک کے بغیر آئین محض ایک ردی کاغذ کا ٹکڑا ہے اور یہی صورت حال آج بھی ہے ً اب کوئی اس خدا کے بندے سے پوچھے کہ حضور! آپ نے اس ملک کو کب بچایا؟ آپ ہی نے تو اس ملک کے دو ٹکڑے کئے قومی وحدت کو پارہ پارہ کیا بلوچستان میں غیر یقینی صورت حال پیدا کی کیا ملک کو اتنا بھیانک نقصان پہنچانے کے بعد بھی آپ کے سینے میں ٹھنڈک نہیں پڑی؟ یہ تو آج بھی فوجی جرنیلوں کو ملک پر قبضہ کرنے کےلئے اکسا رہے ہیں۔
اسی طرح ایک اور جرنیل کہتے رہتے ہیں کہ ISI کے چیف کی حیثیت سے اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) بنانے میں ان کا کلیدی رول رہا ہے جس پر وہ آج بھی فخر کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک بے نظیر بھٹو ایک سیکیورٹی رسک تھیں اور انہیں اقتدار میں آنے سے روکنے کےلئے انہوں نے ان کے مخالف سیاستدانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کےلئے کروڑوں روپے تقسیم کئے تھے گویا کہ پاکستان میں کونسا سیاستدان سیکیورٹی رسک ہے اور یہاں کس سیاسی جماعت کی حکومت ہوگی اس کا فیصلہ بھی یہ جرنیل ہی کریں گے اور ہمارے سیاستدان ان کا دم چھلہ بنتے رہیں گے۔
ایسے نام نہاد اور بزعم خود ملک کے ہمدرد جرنیلوں سے یہی درخواست کی جا سکتی ہے کہ خدا کے لئے اب اس ملک کے 18 کروڑ عوام کا پیچھا چھوڑیں اگر آپ ہمارے اس بچے کھچے پاکستان کی سرحدوں کی ہی حفاظت کر لیں تو یہ بھی بہت ہوگا۔
پاکستان کی سلامتی میں طالع آزما جرنیلوں کا کردار
Oct 04, 2012