”بجلی بر آمد کرنے کا نُسخہ“

Oct 04, 2012

اثر چوہان

آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) نے حکومتِ پاکستان کو ہدایت کی ہے کہ آمدن میں اضافہ کرنے کے لئے ٹیکس اصلاحات نافذ کی جائیں ۔ زرعی آمدن پر ٹیکس لگایا جائے اور سبسڈی ختم کر کے بجلی مزید مہنگی کر دی جائے“۔۔ آئی ایم ایف ہمارے لئے فیملی ڈاکٹر کی طرح ہے۔ اُس کے پاس ہمارے ہر مرض کا علاج ہے اور وہ پرہیز بھی تجویز کرتا ہے ۔ جہاں تک زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کا معاملہ ہے وہ تو 1973ءکا ”متفقہ آئین“ بنانے والوں نے صوبوں پر چھوڑ دیا تھا اور صوبوں کو 39سال بعد بھی اس مسئلے پر غور کرنے کا موقع نہیں مِلا کہ
”اور بھی غم ہیں زمانے میں ، محبت کے سِوا“
ہر سیاسی جماعت پر زمینداروں کا غلبہ رہا ہے اور انشااللہ رہے گا، اِس لئے کوئی بھی جماعت اِس نازک مسئلے کو نہیں چھیڑتی۔ چنانچہ زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کا مسئلہ، آئندہ نسلوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اب رہا بجلی کے نرخوں میں اضافہ۔ ہر حکومت کو اِس فیلڈمیں چوکے اور چھکّے لگانے کا موقع مِلا لیکن صدر زرداری کی حکومت نے تو سینچریاں بنائیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دور میں جب شہر شہر اور گاﺅں گاﺅں بجلی پہنچانے کے اعلانات کئے جا رہے تھے تو الیکٹرانک میڈیا پر ایک اشتہاری ترانہ گایا جاتا تھا، جِس کے ٹِیپ کا مصرع تھا
”میرے گاﺅں میں بجلی آئی ہے“
یہ24سال پرانی بات ہے۔ نئی نسل کو تو اب یہی معلوم ہے کہ
میرے گھر سے بجلی چلی گئی
جب شہروں میں یہ حال ہے تو گاﺅں کے لوگ کیا گِلہ کریں؟ شہر اور گاﺅں کے جِن لوگوں کو بجلی کی نعمت میّسر ہے، وہ لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں۔ صاحب ثروت لوگوں نے U.P.S لگوالئے ہیں، غریب لوگ کیا کریں؟ پرانے زمانے میں جب بجلی نہیں آئی تھی تو، چراغ جلائے جاتے تھے لیکن کہیں کہیں شاعر لوگ اِس طرح کی صورتِ حال بیان کرتے تھے۔
”چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا“
چراغ پاس بھی ہو تو ، بتّی اور تیل کے بغیر تو نہیں جل سکتا۔ چراغ کے دور میں دستی پنکھوں کا رواج تھا۔ کئی لوگ دستی پنکھا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ ایک پنجابی لوک گِیت میں گاﺅں میں رہنے والی ایک خاتون، شہر میں نوکری کے لئے گئے اپنے مجازی خدا کو پیغام بھجواتی تھی
”ڈھول میرا، ماہی وے ،گھر پکھّی دی لوڑ“
اُس زمانے میں، امیر لوگوں نے گھروں میں، رسی سے کھینچنے والے پنکھے لگوا رکھے تھے جنہیں ملازمین کھینچ کر مالکان کے لئے ہوا کا بندوبست کرتے تھے۔ حضرت سحر اپنی رُوداد یوں بیان کرتے ہیں۔۔
”اُن کی خدمت میں، شبِ وصل گُزاری ،ہم نے
چپّی کرنے کبھی بیٹھے، کبھی پنکھا کھینچا“
شاعر حضرات، اپنے اپنے محبوب کے چہرے کو چاند ، شمع اور چراغ سے تشبِیہ دے کر دِل خوش کرتے رہے ہیں۔ علاّمہ اقبال ؒ نے تو اپنے محبوب کے چہرے کو سورج، چاند اور ستاروں سے بھی زیادہ روشن قرار دیا ہے۔ کہتے ہیں
پردہ چہرے سے ہٹا، انجمن آرائی کر
چشمِ مہر ومہ و، انجم کو تماشائی کر
ایک پنجابی لوک گیت میں عاشق اپنی محبوبہ سے مخاطب ہے
”ماں دئیے موم بتّیے!سارے پنڈ وِچّ چانن تیرا“
کیا ہی اچھا ہو، وہ زمانہ پھر لوٹ آئے۔ چاند چہروں والے لوگ گھروں سے نِکلاکریں اور دیہات کو روشن اور شہروں کو منوّر کردیں تو ۔واپڈاکی مُشکلات کم ہو جائیں گی اور اُس سے لوڈشیڈنگ کی شکایت بھی نہیں ہوگی، نئے ڈیم بنانے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ جتنی بجلی ہم پیدا کر رہے ہیں، امارت کی لکیر سے، اوپر زندگی بسر کرنے والوں کے لئے کافی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو دولت مند اسی لئے تو بنایا ہے کہ وہ زندگی ہی میں جنّت کے مزے لُوٹیں۔ اگر غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگ ترقی کرنے کے اہل نہیں تو اس میں ترقی کرنے والوں کا کیا قصور؟
وفاقی حکومت ہر ہفتے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرکے اچھا ہی کرتی ہے۔ غریب غُربا کو خود ہی احساس ہوجاتا ہے کہ بجلی کا استعمال اُن کی معاشی صحت کے لئے مُضر ہے۔ ہر مہینے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کے بھی انشاللہ مثبت نتائج نکلیںگے۔ عوام کالانعام کو تاریخ کے حوالے سے بتایا جائے کہ اسلام کے آغاز اور مسلمانوں کے زوال تک سُلاطِین، شہنشاہوں اور بادشاہوں کو بجلی کہاں نصیب تھی؟ ائرکنڈیشنز، فریج، بجلی کے پنکھوں اور اس طرح کی دوسری الیکٹرانکس تو ایجاد ہی نہیں ہوئی تھیں۔ کیا اُن لوگوںکی زندگی آرام سے نہیں گزرتی تھی؟ پھر آج کے دور میں واویلا کیوں؟فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے کہ انہیں تن و روح کا رِشتہ برقرار رکھنے کے لئے اشیائے خورونوش کی ضرورت ہے یا بجلی کی۔ پنجابی کے پہلے شاعر بابا فرید کہتے ہیں:
”رُکھّی سُکھّی کھاکے، ٹھنڈا پانی پی
دیکھ پرائی چوپڑی نہ ترسائیں جی“
بابا جی کے عہد میں ٹھنڈا پانی مُفت مِلتا تھا۔ ہمارے دور میں روکھی سوکھی روٹی کھا کر، کنویں، تالاب یا جوہڑ کا پانی پیا جاسکتا تھا۔ کیا یہ کم ہے کہ ہمارے60فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی مِل رہا ہے۔ اگر 40فیصد کو گندا پانی ملتا ہے تو اُن کی قسمت! صدر پرویز مشرف نے غریبوں کو مرغی کا گوشت کھانے کا مشورہ دیا تھا۔ اگر وہ انہیں منرل واٹر خرید کر پیاس بجھانے کا مشورہ بھی دے دیتے تو اُن کا کیا جاتا؟
 میراحکومت کو یہ مشورہ ہے کہ وہ ہر ہفتے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرتی رہے۔ غریب صارفِین تنگ آکر، خود ہی بجلی کی سہولت سے دستبردار ہو جائیں گے اور اپنے اپنے بجلی کے کنکشن کٹوانے کے لئے درخواستیں دینے لگیں گے۔ ”پہلے آئیے اور پہلے کٹوایئے“۔ قِسم کے اشتہار دیئے جائیں۔ مجھے یقین ہے کہ واپڈا اور اُس کے ذیلی دفتروں میں بجلی کے کنککشن کٹوانے کے لئے اس طرح قطاریں لگی ہوں گی جِس طرح سستا آٹا خریدنے کے لئے یوٹیلیٹی سٹورز کے سامنے لگی ہوتی ہیں۔ اگر اس نُسخے پر عمل کیا جائے تو ہم برادر اسلامی ملک افغانستان کو آٹے کے ساتھ ساتھ بجلی بھی برآمد کر سکتے ہیں۔

مزیدخبریں