بعض چھوٹی خبر بڑی بن جاتی ہے اور بعض بڑی خبر انتہائی ”چھوٹی“ معلوم ہوتی ہے۔کسی پاکستانی اخبار کے اندر کے صفحہ میں ایک ننھی سی خبر نظر سے گزری”پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ آسٹریلوی بھیڑوں کو اسلامی طریقے سے ذبح کرکے دفن کیا گیا ہے۔7,600 بھیڑوں کو اسلامی احکام کے مطابق ذبح کیا گیا اور مکمل تسلی کے بعد انہیں دفن کیا گیا، صرف ایک بھیڑ ایسی تھی جس کا گلا درست طریقے سے نہیں کاٹا جا سکا “۔ پاکستان وہ مملکت اسلامیہ ہے جہاں انسانوں کی جانیں ”تلف “ کر دی جاتی ہیں مگر جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے۔خیبر تا کراچی مسلمانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جاتا ہے لیکن آسٹریلیا کی غیر مسلم بھیڑوں کے ساتھ اسلامی سلوک سے حکومت نے خود کو مسلمان ثابت کردیا۔ کوئی اپنے بیمار جانور ان کے ساحل پر اتار جائے انہیں خبر نہیں ہوتی۔کوئی ڈرونز مار جائے انہیں شرم محسوس نہیں ہوتی۔کوئی ان کی بغل سے اسامہ لے جائے انہیں حیرت نہیں ہوتی۔کوئی ان کی چوکیوں پر حملے کر جائے انہیں ہوش نہیں ہوتی۔کوئی آگ لگا جائے انہیں بُو نہیں آتی۔کوئی ان کے لوگ اٹھا لے جائے انہیں تلاش نہیں ہوتی۔کوئی ان کی اینٹ سے اینٹ بجا جائے انہیں آواز نہیں آتی۔کوئی فساد پھیلا جائے انہیں سمجھ نہیں آتی۔کوئی سارا ملک اٹھا لے جائے انہیں مسئلہ نہیں ہوگا ۔پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے یا نہیں، انہیں فکر نہیں کیوں کہ ان کا سب کچھ باہر محفوظ ہے۔ پاکستان میں لاکھوں جانور بغیر تکبیر کے کاٹ دئے جاتے ہیں ، پھر بھی ذبیحہ کہلاتے ہیں اور بندے بغیرکسی جرم کے مار دئے جائیںتو بھی دہشت گرد کہلاتے ہیں۔ان کی ایک جان پر کئی جانور قربان جبکہ انسان کی جان آسٹریلوی بھیڑ سے بھی کم تر سمجھی جاتی ہے۔ان کی ایک جان بچانے کے لئے سینکڑوں وفادار قربان ہو جاتے ہیں مگر جان کو لاحق خطرہ ٹل نہیں سکتا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو ان کی نظر اتارنے کے لئے کئی بکروں کا صدقہ دیا گیا ، پاکستان پہنچی تو درندوں نے قتل کرڈالا۔آصف علی زرداری نے صدارتی ہاﺅس میں قدم رکھتے ہی بھیڑ وںاور بکروں کی قربانی سے اپنی نظر اتاری۔ بیمار جانورسے نظر نہیں اتاری جا سکتی وگرنہ 7,600 بھیڑیں صدقہ کا کام دے سکتی تھیں البتہ بیمار معاشرے کی نظر اتارنے کے لئے بیمار بھیڑیں نذر کی جا سکتی ہیں لیکن پاکستان جن قوتوں کی نظروں میں ہے ،ان سے نجات پانے کے لئے کوئی نذر قبول نہیں ہو رہی۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر بھارت کا ”اٹوٹ انگ“ ہے۔ یہ وہی ایس ایم کرشنا ہے جس نے ستمبر میں جب پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا توامن کی آشا ان کے تلوے چاٹ رہی تھی۔ یہ لوگ پاکستان جاتے ہیں تو اور ہوتے ہیں اور جب دوستوں میں ہوتے ہیں تو اور ہوتے ہیں ۔جموں وکشمیر میں مسلمانوں کو ذبح کیا جا رہا ہے مگر پاکستان کے حکمرانوں ان کی قربانیوں کو دفن کر چکے ہیں۔ پاکستان کے حالات بھی عوام کے تھرما میٹر کی طرح اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ کرکٹ کے کھیل کی مانند کبھی گرم کبھی سرد چلتا رہتا ہے۔ہر طرح کی شکست قبول ہے مگر بھارت سے شکست منظور نہیں۔ بھارت سے ہار کی صورت میں کھلاڑیوں کے ساتھ آسٹریلوی بھیڑوں سا سلوک کیا جاتا ہے مگر آسٹریلیا سے جیت کر کھلاڑیوں نے ذبح ہونے سے خود کو بچا لیا۔کل جن کو گالیاں دی جا رہی تھیں، آسٹریلیا سے جیت کے بعد ان کے ساتھ”مُنڈیا سیالکوٹیا“ کے لاڈ کئے جا رہے ہیں۔بھارت جیت کے بھی ہار گیا اور پاکستان ہار کر بھی جیت گیا۔ پاکستان کی” سابقہ شہری “وینا ملک ایک بھارتی ٹی وی چینل پر پاک بھارت میچ کے لئے کمپیئرنگ کررہی تھی ۔ وینا ملک سے آسٹریلیا کی بیمار بھیڑ قسمت والی نکلی جسے اسلامی احکام کے مطابق ذبح ہونا تو نصیب ہو گیا۔ مِنی سکرٹ پہننا معیوب ہوتا تو پاکستانی ٹی وی چینلز پر بھی پابندی عائد ہوتی اور بھارت جاکر فن کا مظاہرہ کرنا ناجائز ہوتا تو پاکستانی فنکاروں پر جرمانہ عائد ہوتا۔ پاکستان میں ہر وہ چیز جائز ہے، جس پر بندے کا اختیار ہو۔ پاکستان ایک دلچسپ سٹیج شوہے جس کا اندازہ اس کی میڈیا رپورٹس سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک طرف ڈرونز طیاروں کی نذر ہونے والے بے گناہوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے اور دوسری طرف بیمار بھیڑیں بھی اسلامی احکام کے مطابق ذبح کرکے دفن کی جا رہی ہیں۔اس سے بڑی مسلمان حکومت پاکستان کو اس سے پہلے نصیب ہوئی اور نہ ہی آئیندہ نصیب ہونے کا امکان ہے۔خبر کے ساتھ آسٹریلوی بھیڑوں کے دسویں ، چالیسویں کے بارے میں بھی معلومات فراہم کر دی جاتیں تو عوام کو فاتح خوانی میں آسانی ہو جاتی۔آسڑیلیا پاکستان سے کرکٹ میچ ہارگیا مگر اپنی بھیڑوں کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔