لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے پنجاب میں غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کروانے کے خلاف درخواستوں کی مزید سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کا استحقاق ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔ پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری سردار لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ غیر جماعتی انتخابات کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا اس سے ہارس ٹریڈنگ کو فروغ ملے گا جبکہ غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات غیر آئینی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اگر بلدیاتی حکومتوں کو اختیارات نہیں دیئے جائیں گے تو یہ نظام غیر موثر ہو کر رہ جائے گا۔ تحریک انصاف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کے لئے خود حلقہ بندیاں کر رہی ہے جبکہ یہ اختیار الیکشن کمیشن کا ہے اس سے دھاندلی خدشہ ہے جبکہ لوگل گورنمنٹ ایکٹ کی ایسی بہت سی دفعات ہیں جو آئین سے متصادم ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا کہ بلدیاتی ایکٹ حکمرانوں کے بزدلانہ رویئے کی عکاسی کرتا ہے۔ جمہوریت اور آئین کا تقاضا ہے کہ اقتدار کا انتخاب نچلی سطح پر منتقل ہونا چاہئے لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے نو اکتوبر کو جواب طلب کر لیا۔ دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ نے بلدیاتی انتخابات جلد کروانے کے لیے دائر درخواست نمٹا دی۔ درخواست گزار اصغر علی شاہ نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے گزشتہ پانچ سالوں سے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے اور نہ ہی وہ کروانا چاہتی ہے جبکہ اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ نے بھی متعدد بار بلدیاتی انتخابات کی تاریخیں مانگی مگر حکومت نے اس پر عمل نہیں کیا۔ سرکاری وکیل نے تحریری طور پر عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ چودہ دسمبر تک بلدیاتی انتخابات کروا دیئے جائیں گے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ میں بھی رپورٹ جمع کروا دی گئی ہے۔ عدالت نے سرکاری وکیل کی یقین دہانی کے بعد درخواست نمٹاتے ہوئے قرار دیا کہ عدالت چاہتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات آئین کے مطابق اپنے وقت پر ہوں۔ فاضل عدالت نے کہا کہ حکومت عدالت میں دیئے گئے وقت کے مطابق انتخابات کروائے ورنہ درخواست گزار کارروائی کیلئے رجوع کر سکتے ہیں۔