ایشین گیمز 2014ئ…پاکستان کا پانچ میڈلز پر اکتفامسائل میں گہری ہاکی ٹیم ٹائٹل کا دفاع نہ کر سکی

Oct 04, 2014

چودھری محمد اشرف
انچن کوریا سے
17 ویں ایشین گیمز آج رنگا رنگ تقریب کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ جائیں گی۔ 19 ستمبر سے 4 اکتوبر تک جاری رہنے والی ان گیمز میں چین کی آخر تک برتری برقرار رہی۔ ایشین گیمز میں شرکت کے لیے آنے والے 45 ممالک کے اتھلیٹس پوری تیاری کے ساتھ آئے تاکہ وہ اپنے ملک کے لیے کوئی اعزاز حاصل کر کے جائیں۔ ایشین گیمز کے تین ایونٹس جن میں آرچری، شوٹنگ اور ویٹ لیفٹنگ شامل ہیں میں نے عالمی ریکارڈ قائم ہوئے۔ یہ ریکارڈ میزبان جنوبی کوریا، چین، شمالی کوریا، قازقستان اور چائینز تائپے کے کھلاڑیوں نے حاصل کیے۔  پاکستان میں گذشتہ دو ڈھائی سال سے جاری کھیلوں کی تنظیموں میں لڑائی کی وجہ سے 2010ء میں آنے والے 8 میڈلز کی تعداد کو بھی ہم برقرار نہ رکھ سکے اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اس بارے میں تو سب ہی جانتے ہیں۔ کامن ویلتھ گیمز میں بھی ہمارے کھلاڑیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت میڈلز حاصل کیے تھے ایشین گیمز کے لیے حکومت پاکستان نے اپنے محدود وائل میں رہتے ہوئے قومی دستے میں شریک کھلاڑیوں کے مختصر کیمپس تو ضرور لگائے لیکن ان کیمپس سے آپ کھلاڑیوں سے انٹرنیشنل میگا ایونٹس میں میڈلز کی توقع نہیں کر سکتے ہیں۔ بہر کیف حکومت کو اس بات کا سنجیدگی سے نوٹس لینا ہوگا کہ آیا کھیلوں کے ذریعے دنیا میں پاکستان کا سوفٹ امیج بہتر کرنا ہے یا نہیں۔ اگر ایسا نہیں تو مستقبل میں پاکستانی کھلاڑیوں کو کسی انٹرنیشنل ایونٹس میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے۔ ایشین گیمز میں شرکت سے پہلے ہی پاکستانی دستہ مسائل کا شکار ہو گیا تھا جب حکومت کی جانب سے ایشین گیمز کے لیے رجسٹرڈ کھلاڑیوں کو مختصر کر کے انہیں کوریا بھجوانے کا اعلان کیا تھا۔ بہر کیف اب اس بات کا ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی کیونکہ جن کھیلوں میں ہمارے کھلاڑیوں کو حکومت نے نہیں بھجوایا انہوں نے اپنی مدد آپ اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی مدد سے ایشین گیمز میں شرکت کر لی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مستقبل میں ہونے والے میگا ایونٹس کی تیاری ابھی سے شروع کر دی جائے۔ تاکہ چار سال بعد ہونے والی گیمز میں پاکستان کا کوئی اچھا مقام ہو۔ 2014ء کی ایشین گیمز میں پاکستان کے میڈلز کی تعداد صرف پانچ رہی ہے جس میں خواتین کرکٹ ٹیم نے گولڈ، قومی ہاکی ٹیم نے سلور جبکہ باکسنگ میں محمد وسیم، ووشو میں مراتب علی شاہ اور کبڈی میں پاکستان ٹیم برانز میڈل کی حقدار قرار پائی۔ باقی کھیلوں میں پاکستان کی شرکت برائے شرکت ہی ہے کھلاڑیوں کو ان گیمز میں شرکت کر کے بخوبی علم ہو گیا ہو گا کہ وہ کہاں پر کھڑے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کھیلوں پر توجہ دے ایسی کھیلیں جن میں گولڈ میڈل آنے کے روشن امکانات ہے ان کی تیاری کے لیے کھلاڑیوں کو بین الاقوامی معیار کی کوچنگ اور سہولیات فراہم کرئے۔ امید ہے کہ جن کھلاڑیوں نے ایشین گیمز میں کوئی اچھی کارکردگی دکھائی ہے حکومت کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ خاص طور پر پاکستان ہاکی ٹیم جس نے پورے ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہنے کا اعزاز حاصل کیا بد قسمتی سے فائنل میں اسے پنلٹی شوٹ آوٹ پر ٹائٹل سے محروم ہونا پڑ گیا۔ اشین گیمز میں پاکستانی قوم کی تمام نظریں صرف اور صرف ہاکی پر تھیں کہ یہی ایک وہ گیم ہے جس میں پاکستان کوئی میڈل جیت سکتا ہے۔ پاکستان ہاکی ٹیم کے  کھلاڑیوں نے ٹورنامنٹ میں جو کھیل پیش کیا وہ انتہائی شاندار تھا۔  گول کیپر عمران بٹ نے سیمی فائنل میں ملائیشیا کے خلاف میچ میں پنلٹی شوٹ آوٹ پر پاکستان کو کامیابی دلا کر ایک مرتبہ پھر 2010ء کی ایشین گیمز کے سیمی فائنل میں سلمان اکبر کی جانب سے پنلٹی سٹروکس روکنے کی یاد کو تازہ کر دیا تھا۔ فائنل میں عران بٹ شاید انڈر پریشر ہو گئے تھے ورنہ میچ کے 60 منٹ میں انہوں نے بھارتی کھلاڑیوں کو گول سکور نہیں کرنے دیا تھا۔ پاکستان ٹیم بدقسمتی سے فائنل نہیں جیت سکی بہر کیف اب کچھ نہیں ہو سکتا جو ہونا تھا وہ ہو گیا اب مستقبل میں ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی کی بھرپور تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ قومی کھیل کے لیے درکار مطلوبہ فنڈز جاری کرئے تاکہ ماضی کے عالمی اعزازات کو واپس حاصل کیا جا سکے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے قومی کھیل کی ترقی کے لیے جو جامع پروگرام ترتیب دے رکھا ہے وہ فنڈز کے بغیر ممکن نہیں ہے۔  پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر اختر رسول کا کہنا تھا کہ ایشین گیمز میں پاکستان ٹیم جن مشکلات سے دوچار ہو کر پہنچی تھی اس کا فائنل تک رسائی حاصل کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ فیڈریشن نے اپنے محدود وسائل میں قومی کھلاڑیوں کو تیاری کرائی ہے اگر ہمارے کھلاڑیوں کو ایشینگیمز سے پہلے یورپی ٹیموں کے خلاف پریکٹس مل جاتی تو ممکن تھا کہ گولڈ میڈل پاکستان کے نام ہو جاتا۔ بھارت اپنی ہاکی پر کروڑوں روپے خرچ کر رہا ہے اس نے ومینز اور ویمنر ہاکی ٹیموں کے لیے بھاری معاوضوں پر غیر ملکی کوچز کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جب ہم اپنی ٹیم کو غیر ملکی دورہ تک فراہم نہیں کر سکتے ہیں۔ میری وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف سے اپیل ہے کہ وہ قومی کھیل کی سرپرستی کریں اور اس کے مستقبل کے پلان پورے کرنے کے لیے فنڈز جاری کریں ہمارے کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے انہیں سہولیات اور تیاری کے مواقع دینے کے لیے فنڈز کی ضرورت ہے۔ پاکستان ہاکی ٹیم کے چیف سلیکٹر اصلاح الدین صدیقی کا کہنا تھا کہ پاکستان ٹیم کو ٹورنامنٹ کے میچز میں کوئی ٹیم شکست نہیں دے سکی ہے بھارت نے کامبابی پنلٹی شوٹ آوٹ پر حاصل کی ہے میچ میں وہ بھی پاکستانی ٹیم سے نہیں جیت سکا ہے۔ اصلاح الدین صدیقی کا کہنا تھا کہ پاکستان ٹیم کا چیمپیئنز ٹرافی کی تیاری کے لیے یورپی ٹیموں کے ساتھ کھیلنا اشد ضروری ہے۔ انشااﷲ جو کام شروع کیے ہیں انہیں پر عمل کیا جائے گا ان کھلاڑیوں کے ساتھ مزید کھلاڑیوں کا پول بڑھایا جائے گا تاکہ ہر کھلاڑی کا بیک اپ ہمارے پاس موجود ہو۔  باکسنگ میں پاکستان کے محمد وسیم نے ایشین گیمز میں 12 سال بعد کوئی میڈل حاصل کیا ہے۔ باکسنگ میں آخری مرتبہ پاکستان کے مہر اﷲ نے 2002ء کی ایشین گیمز میں پاکستان کے لیے گوڈ میڈل جیتا تھا س وقت کے صدر مملکت پرویز مشرف نے انہیں ایک کروڑ روپے کے انعام سے نوازا تھا۔ صدر پرویز مشرف جو ان دنوں خود زیر عتاب ہیں نے اعلان کیا تھا کہ کھیلوں میں جو بھی کھلاڑی عالمی مقابلوں میں گولڈ میڈل لیکر آئے گا اسے ایک کروڑ روپیہ انعام دیا جائے گا۔ مہر اﷲ واحد پاکستانی کھلاڑی ہے جو یہ انعام حاصل کر سکا ہے، محمد وسیم نے 12 سال بعد ایشین گیمز میں پاکستان کے لیے میڈل حاصل کیا ہے اس کی پذیرائی ضروری ہے ہے جبکہ تقریباً دو ماہ قبل محمد وسیم نے کامن ویلتھ گیمز میں بھی سلور میڈل جیت کر ملک کا نام روشن کیا تھا۔ اگر حکومت محمد وسیم کو سہولیات اور انٹرنیشنل معیار کی ٹریننگ کا موقع فراہم کرئے تو س بات میں کوئی شک نہیں کہ باکسنگ میں پاکستان کا نام دنیا میں روشن ہو سکتا ہے۔ایشین گیمز میں برانز میڈل کی حقدار قرار پانے والی پاکستانی کبڈی ٹیم نے میگا اوینٹ میں مایوس کیا ہے، فیڈریشن کے عہدیدار بلند عزائم کے دعوئے کرتے رہے ہیں میدان میں ان کی ٹیم کی کارکردگی سوالیہ نشان پیش کرتی رہی ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر تیسری پوزیشن کے لیے اس کا کوریا سے مقابلہ پڑتا تو شاید وہ اسے بھی نہ جیت سکتے۔ راقم نے خود ایشین گیمز میں کورین کی ٹیم کی کارکردگی کا بریک بینی سے جائزہ لیا جس کا پاکستانی ٹیم سے کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کبڈی فیڈریشن نے اگر میرٹ کو نظر انداز کیا تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دیگر ممالک کی ٹیمیں تیزی سے ترقی کر رہی ہیں وہ ہم سے بہت آگے نکل جائیں گی اور ہم ماضی کے اعزازت کا رونا روتے رہ جائیں گے کہ کبھی ہم چیمپیئن ہوا کرتے تھے۔ مارشل آرٹ کے ووشو ایونٹ میں پاکستان کے مراتب علی نے برانز میڈل حاصل کیا ہے وہ اس سے قبل بھی ایشین گیمز میں پاکستان کے لیے میڈل جیت کر آ چکے ہیں ایک کھلاڑیوں آٹھ سے دس سال تک آپ کے لیے میڈل لاتا ہے آخر اس نے بھی کھیل سے کنارہ کش ہونا ہے، مراتب علی اب مزید کتنے سال کھیل سکتا ہے ہمیں اس کا متبادل تیار کرنا ہوگا تاکہ اگلی ایشین گیمز میں وہ پاکستان کے لیے میڈل لے کر آئے۔ ایشین گیمز میں پاکستان کو جن کھیلوں نے مایوس کیا ان میں سکواش نمبر ایک پر ہے جو مینز ٹیم ایونٹ میں اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے میں ناکام رہے۔ اسی طرح ٹینس، بیڈمنٹن، رگبی، والی بال، سائیکلنگ، شوٹنگ، روئنگ، ٹیبل ٹینس، ویٹ لیفٹنگ اور ریسلنگ میں بھی ہماری کھلاڑی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔

مزیدخبریں