کرنل (ر) آصف ڈار
سینئر نائب صدر پاکستان ٹینس فیڈریشن
پاکستان کا بھاری بھر کم دستہ انچیون میں ہونے والے 17 ویں ایشئن گیمز میں میڈلز کی دوڑ ختم کر چکا ہے وومن کرکٹ کے گولڈ اور ہاکی ٹیم کے سلور میڈل کے علاوہ کبڈی ٹیم‘ باکسر وسیم اور ووشو کے اور مراتب شاہ کے برانز میڈلز کے علاوہ دستہ کے باقی کھلاڑی اور آفیشلز مقابلہ کرنے اور میڈلز جیتنے کے جذبہ سے عاری نظر آئے۔ پرفارمنس کے لحاظ سے وومن کرکٹ ‘ ہاکی اور باکسر وسیم نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی جبکہ مراتب شاہ کے تمغہ کوبہتر ڈراز کی وجہ سے چانس میڈل بھی کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے صرف ایک مقابلہ جیت کر میڈل حاصل کیا ہے۔ پھر بھی ان کے میڈل کو اہمیت دی جانی چاہئے۔
کبڈی کے کھلاڑی بھارت اور ایران کے خلاف جیت کے جذبہ سے عاری نظر آئے۔ ان کی ترجیح سرکل کبڈی ہے۔ سرکل کبڈی پیسے کا کھیل ہے اس لئے عموماً ہمارے کھلاڑی اور عہدیدار اسے ترجیح دیتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں کہ قومی عزت اس قسم کے پیسے سے زیادہ اہم ہے۔ ایشین گیمز سے چند روز قبل واہ کینٹ میں نیشنل سرکل کبڈی چیمپئن شپ کروانے کی کیا ضرورت تھی پہلوانوں نے آٹھ میں سے سات مقابلے ہارے اور وہ بھارتی پہلوانوں کے سامنے بھی ناکام رہے۔ کوئی بتائے کہ ہم بتلائیں کیا‘ اتنا ٹیلنٹ ہونے کے باوجود مایوس کن کارکردگی کے ذمہ داروں اور ٹیلنٹ کا قتل عام کرنیوالوں کا احتساب ضروری ہے رگبی نے پہلے چار مقابلوں میں صفر گول سکور کیا جبکہ اس کے خلاف 205 گول سکور ہوئے سعودی عرب کے خلاف میچ جیت کر 12 ٹیموں میں 11 ویں نمبر پر رہے۔ ٹیبل ٹینس میں عمر رسیدہ کھلاڑیوں نے توقعات کے مطابق مایوس کن کھیل پیش کیا۔ آخر کیوں؟ کئی سوئمر اور پہلوان پول اور ریسلنگ میٹ سے دور رہے۔ کیا ان کھلاڑیوں کو سیرو تفریح کے لئے ساتھ لے جایا گیا تھا۔ قابل مذمت ہیں ایسے اقدامات جو آج کے دور میں ہمارے سپورٹس ایڈمنسٹریٹر کر رہے ہیںمختصر الفاظ ایشیائی کھیلوں کی کارکردگی کو شرمناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس مایوس کن کارکردگی کے ذمہ دار عہدیداران خصوصاً ڈی بھی پاکستان سپورٹس بورڈ اختر گنجیرا ‘ خاور شاہ اور ادریس حیدر خواجہ روزانہ اپنی تصاویر فیس بک پر ایسے لگا رہے تھے جیسے پاکستان میڈلز کی دوڑ میں چین کو کسی وقت بھی پکڑ لے گا۔ بے حسی کی حد اس وقت دیکھنے میں آئی جب مقابلہ سے دستبردار ہونے والے سائیکلسٹ شکیل کی تصویر اختر گنجیرا اور ادریس حیدر خواجہ ٹرافی دیتے ہوئے نظر آئی۔ اس سے قبل کامن ویلتھ کھیلوں پر جانے سے پہلے جھوٹے دعوے کر کے لا تعداد لوگوں کو سیر کروائی غیر ضروری افراد کو کھلاڑی بنا کر قومی پرچم والے کلر کو نیلام کیا گیا۔ بعد میں کم تیاری کا بہانہ بنا کر نا نااہلی کو چھپانے کی کوشش کی گئی اور ایشئن کھیلوں میں اعلیٰ کارکردگی کا خواب دکھایا گیا درمیان میں یوتھ اولمپک کے کھلاڑی بھی چین سے بغیر میڈل کے واپس لوٹے۔ مسلسل تین بڑے یونٹس میں ہماری کارکردگی نے دعوئوں کا پول کھول دیا ہے۔ کیا یہ احتساب وزارت کھیل کرے گی بدقسمتی سے متعلقہ وزارت یہ کام کبھی نہیں کر سکتی کیونکہ پوری وزارت میں کھیلوں سمجھ بوجھ رکھنے والا شائد ایک بھی شخص نہ ملے۔
کامن ویلتھ اور ایشئن کھیلوں میں وزارت اور پاکستان سپورٹس بورڈ سے بھی بڑی تعداد میں عہدیداروں کو سیر کا موقع فراہم کیا پسندیدہ افراد کو کھلاڑیوں کے نام پر دستہ میں شامل کیا گیا۔ پاکستانی کھیلوں کے مستقبل اور ملکی عزت کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ قومی دستہ کی واپسی پر حکومت جوڈیشل کمیشن بنائے یا سپریم کورٹ از خودنوٹس لے کر یہ کام کرے۔ اس شرمناک کارکردگی دکھلانے والے عہدیداروں کا تعین کر کے ان کو سخت سے سخت سزادی جائے۔ تاکہ ان کی جگہ لینے سے پہلے آنے والے عہدیداران کو واضح ہو جائے کہ پاکستانی کھیلوں کا نظام سزا اور جزا کے اصول پر چل پڑا ہے۔ اگر ہم آئندہ ایشین گیمز میں میڈلز کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب کا احتساب کرنا ہو گا اور ذمہ داروں کو سزا دینا ہوگی کھیلوں کو نظرانداز کر کے ہم بین الاقوامی سطح پر ا پنے سافٹ امیج کو ابھارنے کا موقع ضائع کر رہے ہیں۔ کچھ سوچیں!