سیاست دانوں کے مفادات اور سیاسی مقاصد ان کی ذات کے گرد گھومتے ہیں، انکی کوشش ہوتی ہے کہ ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ افسران اور مختلف صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے افسران بھی ان کی سیاسی قوت کے زیراثر رہیں، ان کے اشارہ پر ہی کام کریں جس سے ان کے سیاسی مفادات اور سیاسی اقتدار کو تقویت حاصل ہو اور بعض سیاسی لوگ عوام میں اپنی مقبولیت کے گراف کو اونچا کرنے کے لئے ایسے سیاسی نعرے بھی بلند کرتے ہیں جن کی کسی بھی زاویہ نگاہ سے کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور نہ اپنے اندر کوئی جاذبیت رکھتے ہیں، نہ ہی عوام کے مفادات اور عوام کو درپیش مسائل و مصائب سے ایسے مطالبہ سے حل کرنے اور کرانے میں کوئی معاونت حاصل ہوتی ہے جب بھی کسی تحصیل کو ضلع کا درجہ دیا جاتا ہے تو حکومت یہ اقدام اٹھانے سے قبل انتظامی طور پر بہت سے پہلو¶ں کو سامنے رکھتی ہے اس میں بنیادی طور پر حکومت اس پہلو پر غور کرتی ہے کہ کسی بھی تحصیل کو ضلع قرار دینے سے صوبائی اور وفاقی حکومت کو جو اخراجات برداشت کرنے پڑیں گے اور ضلع کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے نئے ضلعی دفاتر قائم کرنے ہوں گے ان کو پورا کرنے کے لئے ضلع بنانے کی صورت میں حکومت کو جو ریونیو مختلف ٹیکسوں کی مد میں وصول ہوتا ہے نیا ضلع یہ ریونیو فراہم کر پائے گا یا نہیں اس کے علاوہ کچہری کے مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں۔ سیاست دانوں کو ان امور سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ فیصل آباد جو کسی زمانہ میں پنجاب کے اضلاع میں سب سے بڑا ضلع تھا اور ماضی میں جب اسکے وجود نے جنم لیا تو فیصل آباد حافظ آباد کی ایک کالونی کا درجہ رکھتا تھا اور حافظ آباد نہری نظام کے حوالہ سے مرکزی مقام کا درجہ رکھتا تھا۔ آج بھی اسکا تمام نہری نظام حافظ آباد ڈویژن ہی چلا رہا ہے اور تمام محکمہ انہار کے دفاتر حافظ آباد ڈویژن کہلاتے ہیں، یہی ڈویژن فیصل آباد کے تمام نظام کو چلا رہا ہے۔ جب فیصل آباد سے ٹوبہ ٹیک سنگھ کو الگ کرتے ہوئے ضلع کا درجہ دیا گیا تو اس کی انتظامی طور پر بہت سی وجوہات تھیں عوام کو اپنے مقدمات کے سلسلہ میں آنے کے لئے وقت درکار ہوتا تھا۔ ایسے ہی انتظامی طور پر بہت سے مسائل درپیش تھے جنہیں حل کرنے کے لئے ٹوبہ کو ضلع کا درجہ دیا گیا لیکن ٹوبہ ٹیک سنگھ ضلع ہونے کے باوجود تعمیروترقی کی وہ منازل ابھی تک حاصل نہیں کر سکا جو اک ضلع ہونے کی صورت میں اسے طے کرنی چاہیے تھی بلکہ ٹوبہ ٹیک سنگھ فیصل آباد ڈویژن میں پسماندہ ضلع کہلاتا ہے۔ سابق دور حکومت میں جب چوہدری پرویزالٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے اور ساہی برادران حکومت کے بہت نزدیک تھے تو انہوں نے اپنے سیاسی مفادات کو تقویت فراہم کرنے کی غرض سے چک جھمرہ اور جڑانوالہ کے عوام کو سبزباغ دکھایا تھا کہ جنرل پرویزمشرف جڑانوالہ یا چک جھمرہ کو ضلع قرار دینے پر راضی ہو گئے ہیں لیکن پاکستان کے پلاننگ کمیشن کے ارکان نے اس تجویز کو پوری سختی سے رد کر دیا تھا اور کہا کہ جڑانوالہ اور چک جھمرہ تو فیصل آباد کی ایک اضافی کالونی کا درجہ رکھتے ہیں جبکہ اس کے مقابلہ میں فیصل آباد کی ایک رہائشی کالونی غلام محمد آباد جو ایشیاءکی سب سے بڑی رہائشی کالونی کا درجہ رکھتی ہے ، اس کی آبادی بھی چک جھمرہ سے کہیں زیادہ ہے۔ فیصل آباد سے پنجاب اور وفاق کو جو ریونیو حاصل ہوتا ہے اس کا ایک چوتھائی حصہ اس کالونی میں لگی ہوئی پاور لومز کی انڈسٹری سے حاصل ہوتا ہے۔ اب اوباسی کڑی میں پھر ابال آیا ہے، جڑانوالہ یا چک جھمرہ کو ضلع بنانے کا مطالبہ منظرعام پر آیا ہے، بعض اخباری خبروں کے مطابق مسلم لیگ(ن) کا ایک گروپ عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ جڑانوالہ یا چک جھمرہ کو ضلع کا درجہ دینے کا اصولی طور پر فیصلہ ہو چکا ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف اور قومی اسمبلی کے رکن حمزہ شہبازشریف بھی اس کے حامی ہیں بلکہ ان کی ہدایات کی روشنی میں سرکاری طور پر رپورٹس تیار کی جا رہی ہیں۔ ان خبروں میں کہاں تک صداقت ہے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ میاں محمد شہبازشریف کی تائید و حمایت چک جھمرہ اور جڑانوالہ کو ضلع کا درجہ دینے کا مطالبہ کرنے والوں کو حاصل ہو گی کیونکہ اب فیصل آباد کو مزید تقسیم کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک کے میاں محمد شہبازشریف زبردست مخالفوں میں شامل ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنی تمام تر سیاسی قوت اور اختیارات رکھنے کے باوجود جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ نہ بنوا سکے اور آج بھی وہ اس کو چلائے ہوئے ہیں۔ کسی بھی شہر کو تحصیل سے ضلع قرار دینے کی صورت میں کوئی انتظامی مشینری کو تبدیل کرنا پڑا ہے اور یہ کوئی گڈی گڑیا کا کھیل نہیں ہے ہاں بیوروکریسی کو اس سے ضرور فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ بیوروکریسی کو ایک نئے ضلع کی حکمرانی کا تاج مل جاتا ہے لیکن بعض بیوروکریٹ جو عوامی مسائل پر دسترس رکھتے ہیں وہ اس اقدام کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ فیصل آباد کا جہاں تک تعلق ہے تو چک جھمرہ تو فیصل آباد سے پندرہ بیس منٹ کی مسافت پر ہے اور جڑانوالہ کوئی آدھ گھنٹے کی مسافت پر ہے اگر سماجی طور پر دیکھا جائے تو آبادی کے زاویہ نگاہ سے فیصل آباد اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ چک جھمرہ اور جڑانوالہ بھی فیصل آباد کی اضافی بستیوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور عوام کو ضلع کچہری کے بھی کوئی مسائل درپیش نہیں ہیں اس کے باوجود ضلع کا مطالبہ کرنے والوں کی عقل کا ”ماتم“ ہی کہا جا سکتا ہے اور حیران کن بات ہے کہ کسی بھی زاویہ نگاہ سے حتیٰ کہ سیاسی زاویہ سے بھی جڑانوالہ یا چک جھمرہ کو ضلع کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ فیصل آباد کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر چوہدری محمد نواز سے اس مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے اپنے بیان میں حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ جڑانوالہ یا چک جھمرہ کو ضلع کا درجہ قرار دینے سے قبل فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے مشاورت کی جائے اور چیمبر کی مشاورت کے بغیر کوئی اقدام نہ اٹھایا جائے۔ صدر چیمبر چوہدری محمد نواز کا کہنا ہے کہ اس وقت فیصل آباد کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے تمام مرکزی دفاتر فیصل آباد میں کام کر رہے ہیں اگر حکومت نے بغیر مشاورت کے کوئی قدم اٹھایا تو اس سے فیصل آباد کی تمام انڈسٹری دو اضلاع میں تقسیم ہو جائے گی اور اس کے بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ چوہدری محمد نواز یہ بات بھول گئے کہ اس اقدام سے فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ہی دو چکیوں کے پاٹ میں پس کر رہ جائے گی بلکہ مطالبہ کرنے والے اس سازش کے پس پردہ فیصل آباد کو عالمی سطح پر پاکستان کا مانچسٹر ہونے کا جو اعزاز حاصل ہے اس سازش کی کامیابی کی صورت میں فیصل آباد اس اعزاز سے بھی محروم ہو جائے گا گویا جڑانوالہ کو ضلع کا درجہ دینے سے جہاں اور بہت سے مسائل پیدا ہوں گے جن کی طرف صدر چیمبر آف کامرس چوہدری محمد نواز نے توجہ مبذول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے اور اپنے صنعتی یونٹوں کی توسیع کے پیش نظر صنعت کاروں اور انتظامی افسروں نے باہمی مشاورت سے کھرڑیانوالہ میں اپنے یونٹ قائم کئے جو کہ تحصیل جڑانوالہ کا حصہ ہے اگر جڑانوالہ کو تحصیل کی بجائے ضلع کا درجہ دیا جاتا ہے تو اس اقدام سے فیصل آباد کی صنعت و تجارت دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ اس سے انتظامی پیچیدگیاں جنم لیں گی۔ یہ بات تو اپنی جگہ ایک حقیقت ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر جڑانوالہ کو ضلع بنانے کی حماقت کی گئی تو اس کی حد بندی کیسے ہو گی۔ کیا چک جھمرہ کو تحصیل کا درجہ دے دیا جائے گا گویا جڑانوالہ ایک ایسا ضلع ہو گا جو تحصیل اور ضلع کا مقام رکھے گا اور عجب طرفہ تماشا ہو گا۔ اس مطالبہ کے پیچھے صرف اتنی سازش ہے کہ چند سیاست دان جو اپنی وفاداری کا پیمانہ وقت کو قرار دیتے ہیں اور وقت کے مطابق اپنی وفاداری تبدیل کرنے میں چند سیکنڈ بھی نہیں لگاتے، موجودہ سیاسی تناظر میں چونکہ انہیں ضلع کونسل کی چیئرمین شپ ملنے کی دور دور تک کوئی کرن نہیں نظر آتی تو انہوں نے ضلع کا شوشہ چھوڑا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ فیصل آباد کے لوگ اس مطالبہ کو ایک پھلجڑی قرار دیتے ہیں جو بعض سیاست دانوں نے دل کو خوش رکھنے کا غالب یہ خیال اچھا ہے کے مصداق ایک شوشہ ہے اور کچھ نہیں!!۔ حکومت اس وقت جن سیاسی بحرانوں میں پھنسی ہوئی ہے وہ کوئی اور بحران اپنی ہی پارٹی کو پیدا کرنے کی اجازت نہیں دے گی ، عمل کی کسوٹی پر یہ مطالبہ پورا نہیں اترتا۔
فیصل آباد کی عالمی پہچان چھیننے کی سازش!
Oct 04, 2016