سیاسی دباو¿ میں پولیس کا کردار

پاکستانی عوام کسی بھی صوبہ سے تعلق رکھتے ہوں ان کی ایک دیرینہ خواہش ہے کہ کاش ہماری پولیس میں بھی وہ صفات پیدا ہو جائیں جو کہ مغربی ممالک کی پولیس کا طرہ امتیاز قرار دی جاتی ہیں اس وقت پوری دنیا میں تفتیش کے حوالہ سے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی پولیس کی یہ روایت ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکی ہے کہ کسی بھی مقدمہ اور کیس میں وہ کسی بھی سیاسی دباﺅ کا شکار نہیں ہوتی اور نہ سیاسی دباﺅ قبول کرتی ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ برطانوی پولیس ہو یا مغربی ممالک اور امریکہ کی پولیس مکمل طور پر غیر سیاسی ہے اور پولیس میں جو نئی بھرتی بھی کی جاتی ہے وہ مکمل طور پر میرٹ پر ہوتی ہے اور وہاں کی حکمران پارٹی کوئی بھی ہو وہ اپنے ارکان اسمبلی کو پولیس کے محکمہ میں بھرتی ہونے والوں کا کوئی کوٹہ تقسیم نہیں کرتی بکلہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ فلاں پولیس افسر یا پولیس اہل کار کسی کے سیاسی مفادات کو تقوت فراہم کرنے کی غرض سے نافذ العمل پولیس ایکٹ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے تو کوئی وقت ضائع کئے بغیر اس اہلکار یا پولیس افسر کو پولیس کی صفوں سے باہر ہی نہیں نکال دیا جاتا بلکہ اس کے خلاف محکمانہ طور پر تادیبی کارروائی بھی عمل میں لائی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں اس کے برعکس پولیس کلچر اس قدر پروان چڑھ چکا ہے کہ پولیس جو بھی حکمران پارٹی ہوتی ہے اس کی بی ٹیم کے طور پر کام کرتی ہے کراچی میں اس وقت جو حالات ہیں اگر ان حالات کے پس پردہ عزائم کو جاننے کی کوشش کی جائے تو یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ موجودہ حالات میں بھتہ خوری ٹارگٹ کلر اور دیگر جرائم کو انتہا تک پہنچانے میں پولیس کا کردار بڑا ہی مشکوک ہے بلکہ سیاسی بنیادوں پر تشکیل پانے والی پولیس ان جرائم میں خو دبھی ملوث ہے اور رشوت اور سفارش تو پولیس کلچر لازمی جز بن چکا ہے اور پولیس جس کی بنیادی کردار انصاف کی فراہمی میں اپنی غیر جانب دار تفتیش سے عوام کو کسی مقدمہ میں انصاف فراہم کرنے میں معاونت فراہم کرنا ہوتا ہے اس کا دور دور تک نام و نشان بھی نہیں پایا جاتا البتہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے صوبہ خیبر پی کے میں پولیس کے کلچر کو تبدیل کرنے کی ابتدا ضرور کی ہے اس کے نتائج برآمد ہوتے بھی ہیں یا پولیس کلچر میں تبدیل کا نعرہ ایک سیاسی نعرہ ہی ہے ‘ پنجاب پولیس کے بارے میں پور ے یقین اور اعتماد سے کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب پولیس مکمل طور پر سیاسی ہے جس طر ح کراچی میں ایم کیو ایم نے زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے سیاسی عزائم کو بروئے کار لانے کےلئے پولیس میں اپنی ایک طاقت ور فورس پیدا کی ایسے ہی کوئی ہماری اس رائے سے اتفاق کرے یا نہ کرے پنجاب پولیس مکمل طور پر سیاسی رجحانات رکھتی ہے (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنے سیاسی حق دات کو تقویت فراہم کرنے اور سیاسی مخالفین کو دبانے کےلئے پولیس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے ‘پولیس کی چہرہ دستوں کی داستانیاں تو گلی گلی اوربازار بازار سنائی دیتی ہے سیاسی طور پر پولیس اسٹیٹ کا جو تصور پایا جاتا ہے اس تصور نے اسی وقت جنم لیا جب حکمرانوں سے پولیس کو تمام آئین و قانون کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے مقاصد کےلئے استعمال کیا تو پولیس میں ایک نیا کلچر پیدا ہوا جسے تھانہ کلچر بھی کہہ سکتے ہیں اوراس کلچر نے ہی پولیس میں رشوت کے کلچر نے جنم لیا جو بد قسمتی سے آج ایک عفریت کی شکل میں منہ پھاڑے ہر ایک مظلوم کو نگلتا ہوا دکھائی دیتا ہے ایک دانش ور کا قول ہے کہ اگر ہماری پولیس آئین دستور اور قانون کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دے تو آدھے سے زیادہ جرائم خود کا بخوبی ختم ہو جائیں گے کیونکہ جرائم کی پرورش کرنے کی دو یونیورسٹیاں ہیں ایک پولیس کا محکمہ اور دوسرا ہماری جیلیں ‘ جہاں جرائم کی تعلیم ایسے انداز میں دی جاتی ہے کہ ان جرائم پر قابو پانے میں قانون بھی اپنی بے بسی کا آغاز کرتا ہے ایک طویل ترین عرصہ سے تھانہ کلچر کے خاتمہ کی آواز یں سن رہے ہیں اور اس کے خاتمہ کےلئے ہم نے پولیس ایکٹ میں با ز بڑی خوش آئندہ تبدیلیاں بھی کیں لیکن یہ حیران کن بات ہے کہ کوئی بھی پولیس ایکٹ جو کہ بڑی بلند بام اور بلند آہنگ کے ساتھ نافذ کیا گیا اور یہ دعوی کیا گیا کہ تھانہ کلچر کو جڑ سے نکال دیا گیا ہے لیکن زمینی حقائق ہمیں اس دعوی کی نفی کی اور تھانہ کلچر ایک شیش ناک کی طرح پھن پھیلائے تیری نگاہوں کے سامنے کھڑا رہا اور ہم اس کی پوجا کرنے پر مجبور بھی دکھائی دینے ‘ پنجاب میں جس قدر بھی انسپکٹر جنرل پولیس کے عہدہ جلیلہ پر جو لوگ فائز رہے اور انہوں نے اپنی آپ بنتی بھی رقم کی وہ تمام تھانہ کلچر کا نہ صرف اعتراف کرتے ہیں بلکہ پولیس کی ایسی ایسی چہرہ دستوں کا ذکر کرتے ہیں کہ انسانیت کو اپنا منہ چھپانے کےلئے چادر بھی دستیاب نہیں ہوتی بہر کیف فیصل آباد کے پولیس چیف افضال احمد کوثر نے ایک تقریب میں پولیس ملازمین کے پے سکیل اپ گریڈ ہونے کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جہاں ملازمین کو مبارک باد دی وہاں ملازمین کو ان کے مسائل حل کرانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ آج کے پولیس دربار کا مقصد وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف اور انسپکٹر جنر ل پولیس پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کو پولیس کی مراعات بڑھانے پر شکریہ ادا کرنا ہے ‘ اول تو پولیس کے محکمہ میں دربار کا کوئی تصور ہی نہیں اور نہ ہی جمہوریت میں دربار ہوتے ہیں یہ توگ بادشاہوں کی روایت ہے اور بادشاہوں کے دربار ہی ہوتے تھے اور ان درباروں میں درباری بادشاہ کی خوشنودی حاصل کرنے کےلئے قیصدے ہی پیش کیا کرتے تھے ‘فیصل آباد پولیس کے چیف افضال احمد کوثر نے دربار میں جو کچھ کہا اسے قصیدہ قرار دیں یا کچھ اور لیکن ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ پولیس میں جہاں تھانہ کلچر اپنے عروج پر ہے وہاں پولیس کے جوانوں نے جرائم پیشہ افراد اور ملک دشمن افراد کے سامنے کھڑے ہونے اور اپنے فرائض کی بجا آوری کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے کی ایک روایت بھی قائم کی یہی روایت پولیس میں تمام تر خرابیوں کے باوجود ان کے ماتھے کا جھومر ہیں اور عوام بھی بھر پور انداز ہدیہ تبرک پیش کرتے ہیں افضال احمد کوثر نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے پولیس کا نسٹیبل جو کہ قبل ازیں گریڈ پانچ کا ملازم تھا اب اسے گریڈ سات ملے گا اور ہیڈ کانسٹیبل کو اب گریڈ نو ملنے کا اور اسی طرح اے ایس آئی اب گریڈ گیارہ کے ملازم ہوں گے ‘ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ پولیس ملازمین کے معاشی حالات تبدیل کرنے کی طرف قدم بڑھایا گیا ہے اگر گزشتہ آٹھ برسوں پر نگاہ ڈالیں تو میاں شہباز شریف نے پولیس کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا لیکن اس اضافہ کے باوجود میاں شہباز شریف پولیس سے شکوہ کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ جرائم پر قابو پانے میں پولیس نے کسی کارکردگی کا کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ فیصل آباد پولیس کے چیف افضال احمد کوثر نے کہا کہ پولیس کے محکمہ کو سفارش اور رشوت سے پاک کرنے کا عہد لیتے ہوئے پولیس اہلکاروں سے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پولیس اہلکار اپنے اس داغ کو دھوئیں تاکہ معاشرہ میں ہمارا جو امیج بن چکا ہے وہ زائل ہو۔ جہاں تک پولیس کے محکمہ سے رشوت اور سفارش کے کلچر کے خاتمہ کی بات ہے یہ سنتے سنتے عوام کے کان پک چکے ہیں۔ اس کلچر کا خاتمہ صرف ایک ہی صورت میں ہو سکتا ہے کہ پولیس کو سیاسی دبا¶ سے آزاد کیا جائے اور پولیس ایکٹ میں جو فرائض مقرر کئے گئے ہیں ان پر کوئی سختی سے عمل کیا جائے اور تھانو ں کا نیلام بند کیا جائے۔ ایس ایچ او حضرات نے جو اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے ایک تھانہ سے نکلتے ہیں تو دوسرے تھانہ میں دربار لگائے نظر آتے ہیں۔ ایس ایچ او میرٹ پر لگائے جائیں اور جو پولیس اہلکار جرائم میں ملوث پائے جائیں انہیں پولیس کی صفوں سے باہر نکالا جائے اور پولیس اہلکار جو عدالتی احکامات کی پرواہ نہیں کرتے ان کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے جیساکہ فیصل آباد کے بائیس ایس ایچ او کے خلاف مقدمات سیشن کورٹ نے مقدمات قائم کرنے کا حکم دیا ہے اس حکم پر نہ صرف عمل درآمد کیا جائے بلکہ ایک اصول بنایا جائے کہ اگر کوئی سیشن کورٹ کسی پولیس اہلکار یا افسر کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کا حکم صادر کرتی ہے تو ایسے پولیس اہلکار اور افسر کو کسی بھی تھانہ میں تعینات نہ کیا جائے بلکہ اسے تھانہ بدلی کی سزا دی ہے یوں تھانہ کلچر بھی ختم ہو سکتا ہے اور پولیس میں رشوت کلچر پر قابو بھی پایا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن