اسلام آباد (شفقت علی/ نیشن رپورٹ) پاکستان نے حالیہ باہمی کشیدگی کے تناظر میں بھارت کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی ثالثی کو قبول کرنے کا کہا ہے‘ تاہم بھارت اس آپشن پر غور کرنے پر تیار نہیں اور کشمیر کو دوطرفہ مسئلہ قرار دینے پر اصرار جاری رکھے ہوئے ہے۔ وزارت خارجہ کے سینئر عہدیدار نے ’’دی نیشن‘‘ کو بتایا کہ دونوں ملکوں نے بیک چینل رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں اور پاکستان نے بھارت کو کہا کہ وہ سربراہ اقوام متحدہ کی پیشکش قبول کر لے جو نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے۔ عہدیدار نے کہا بظاہر بھارت اس پیشکش پر غور کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس مسئلے پر دوسروں کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘ تاہم ہم بھارت پر ثالثی قبول کرنے کا دبائو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک اور عہدیدار نے کہا بھارت بان کی مون کو درمیان میں لانے سے اسلئے ہچکچا رہا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے مسئلہ کشمیر پر اس کا مؤقف کمزور ہے۔ انہوں نے کہا بان کی مون کی ثالثی کے ساتھ ہم زیادہ فائدہ حاصل کرنے والی پوزیشن میں ہونگے لہٰذا بھارت اس آپشن سے گریزاں ہے۔ ایک روز قبل تھنک ٹینک ’’سٹرٹیجک وژن انسٹیٹیوٹ‘‘ (ایس وی آئی) نے حکومت کو بھارت کے حوالے سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ بھارتی سرجیکل سٹرائیکس کے دعوئوں کے بعد حکومت نے اعلیٰ سطح اجلاس بلائے ہیں۔ تھنک ٹینک ایس وی آئی نے کہا کشمیر میں آزادی کی تحریک گرم ہونے کے بعد مسئلے کو عالمی توجہ حاصل ہوئی ہے۔ اس موقع پر پاکستان کو کشمیریوں کی سفارتی‘ سیاسی حمایت جاری رکھنا ہے۔ سابق سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) ندیم خالد لودھی نے کہا بھارت نے کبھی بھی سرجیکل سٹرائیکس کئے تو اسے جنگ کا اقدام سمجھا جائیگا اور اس کا اسی طرح جواب دیا جائیگا۔ پاکستان کے ’’فل سپیکٹرم ڈیٹرینس‘‘ استعداد نے بھارت کو پاکستان کے خلاف فوجی ایڈونچر سے باز کر رکھا ہے۔ تجزیہ کار ڈاکٹرعادل سلطان نے کہا پاکستان کی دفاعی صلاحیت نے بھرپور کام کیا ورنہ بھارت پاکستان کیخلاف فوجی آپشن استعمال کر چکا ہوتا۔ پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حسین سہروردی نے درپیش علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کی وجہ پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کو قرار دیا۔ سابق سفیر فوزیہ نسرین نے کہا بھارتی اقدامات ایک ذمہ دار ریاست کے افعال نہیں ہیں۔