لبیک اللھم لبیک۔ (5)

Oct 04, 2016

سعید آسی

آج سب سے پہلے میں معروف دانشور، براڈ کاسٹر اور ادیب اشفاق احمد مرحوم کی ایک تحریر آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں جو مندرجہ ذیل ہے۔
’’ایک محفل میں ایک حضرت نے میری ایک بات پر سوال کیا کہ آپ کا مسلک کیا ہے؟ میں نے جواب دیا ’’کچھ نہیں‘‘ کہنے لگے پھر بھی۔ میں نے کہا الحمد للہ میں مسلمان ہوں اور یہ نام خدا کا دیا ہوا ہے۔ طنزیہ فرمانے لگے کہ ’’کہیں بھی جانا ہو، بندے کا کوئی ایک راستہ ہوتا ہے۔‘‘ ادب سے عرض کی ’’حضور میں پکی سڑک پر چلنا پسند کرتا ہوں، پگڈنڈیاں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اور یہ صرف ایک دفعہ کی بات نہیں، اکثر لوگ اچھے بھلے سمجھدار اور پڑھے لکھے بھی یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کہ دوسرا کسی مسلک کی پیروی نہیں کرتا۔ تو میری ایک چھوٹی سی الجھن ہے، آپ مدد کر دیجئے۔ خطبہ حج الوداع کے تاریخی موقعے کا ذکر تو سب نے یقیناً پڑھا ہو گا۔ کوئی لاکھ سوا لاکھ کا مجمع تھا۔ کوئی مجھے بتائے گا کہ اس وقت موجود صحابہ اور نو مسلم شیعہ تھے یا سنی؟ میں جاننا چاہتا ہوں کہ 1703سے پہلے جب عبدالوہاب نجدی، 1856ء سے پہلے احمد رضا خان بریلوی، 1866ء سے پہلے دارالعلوم دیوبند، لگ بھگ 100 سال پہلے جب اہلحدیث اور سلفی تحریک والے وجود نہیں رکھتے تھے تو عام سادہ مسلمانوں کو کیا کہا جاتا تھا اور کیا ان سب تحریکوں، مدرسوں اور شخصیات نے خود یا اپنے ماننے والوں کی وجہ سے ایک مسلک اور فرقوں کا روپ نہیں دھارا۔ کیا ان سب نے مسلمانوں کو تقسیم کیا یا متحد کیا؟ رنگ، نسل، زبان، علاقے اور برادری میں تقسیم کیا ابھی مسلمانوں کے لئے ناکافی تھے کہ مذہب کے اندر فرقے متعارف کروائے گئے۔ کیا ہمارے قابل احترام اساتذہ جن کو ہم آئمہ کرام کہتے ہیں، ہم کو کبھی اپنی پوری زندگیوں میں ایک بار بھی حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی اور جعفریہ میں بٹنے کا درس دے کر گئے؟ تصوف کے نام پر جو سلسلے بنائے گئے اور راستے جدا کئے گئے ان کی تفصیل الگ سے ہے۔ میری یہ بھی رہنمائی کوئی فرما دے کہ اگر یہ محض فقہی، فکری اور علمی مسالک ہیں تو مسجدیں کیوں الگ ہیں؟ ڈاڑھی کا سائز، ٹوپی کا سٹائل، عمامے کا رنگ، جھنڈے کی شبیہہ، نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ اور مدرسے کا سلیبس کیوں الگ ہے؟ تقسیم اتنی خوفناک ہے کہ عقائد، رسومات، تہوار، بچے اور بچیوں کے نام، زمانے کے امام، حتیٰ کہ صحابہ کرام تک بانٹ رکھے ہیں۔ یہاں شہہ دماغوں نے کالا، سفید، نارنجی، ہرا، پیلا اور بھورا سب رنگ اپنے ساتھ مخصوص کر رکھے ہیں۔ سارا زور اس بات پر کیوں ہے کہ ہمیں جس حالت میں بھی دیکھے پہچان جائے کہ ہم ’’الگ‘‘ ہیں اور فلانے ہیں۔ جناب والا مجھ کم علم اور کم عقل کو یہ بھی سمجھا دیں کہ مدرسوں، فتوئوں کی کتابوں اور لوگوں کی باتوں سے نکلا ہوا مسلم اور فرقہ موروثی کیسے ہوتا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ بھی کسی ملٹی نیشنل پراڈکٹ کی طرح لیبل لگا کر آتا ہے کہ ان کے سامنے ماڈرن کارپوریٹ کلچر، مارکیٹنگ اور برانڈنگ تو ابھی کل کی بات لگتی ہے۔
آج کے مقابلے میں تو اچھے دور تھے شائد جب مناظرے ہوتے اور چیلنج کئے جاتے تھے۔ اول اول بحث مباحثہ ہی تھا لیکن پھر بات آگے بڑھتی گئی۔ پہلے تو محض ایک دوسرے کو لعنت ملامت اور تبرے بھیج کر کام چلا لیا جاتا تھا، پھر کفر کے فتوے مارکیٹ میں آئے۔ بات جنت اور دوزخ کے سرٹیفکیٹ بانٹنے تک چلی گئی پھر چند ’’جدت پسندوں‘‘ نے سیدھا وہاں تک پہنچانے کا کام بھی اپنے ذمہ بہ احسن و خوبی لے لیا۔ ٹیکنالوجی نے ترقی کی اور یہ ’’سائنسدان‘‘ گروہ در گروہ لوگوں کو جنت بلکہ اپنی طرف سے دوزخ کو روانہ کرنے لگے۔ میرے رسول ہادی و برحق نے تو منع کرنے کے لئے اور ہماری پستی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بنی اسرائیل سے تقابلے میں ہمارے 73فرقے کہے، ہم نے اس حدیث سے اپنے فرقے کے صحیح اور جنتی ہونے کا جواز گھڑ لیا، اور باقی سب کو ٹھکانے لگا دیا۔ اب ہوتے تو پتہ نہیں کیا کہتے، لیکن نصف صدی پہلے ابن انشاء نے لکھا تھا
’’دائروں کی کئی اقسام ہیں۔ ایک دائرہ اسلام کا بھی ہے۔ پہلے اس میں لوگوں کو داخل کیا جاتا تھا۔ اب عرصہ ہوا داخلہ بند ہے صرف خارج کیا جاتا ہے‘‘
خدا نے تو کہا ’’ان لوگوں میں سے نہ ہونا جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور فرقے فرقے ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پاس ہے‘‘ (سورہ الروم)
اور خدا یہ بھی تو کہا ہے کہ ’’جن لوگوں نے دین کو فرقے کر دیا اور گروہوں میں بٹ گئے (اے محمدؐ) کہہ دو تمہارا ان سے کوئی واستہ نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو (سب) بتائے گا‘‘ (سورہ الانعام)
یہ آیت بھی تو سب کو یاد ہی ہو گی کہ ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور تفرقے میں نہ پڑنا‘‘ (سورہ آل عمران)
اور کیا خدا نے اپنی تقسیم اپنے عذاب سے تشبیہہ نہیں دی؟ جب فرمایا کہ ’’کہہ دو کہ وہ قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے عذاب بھیجے یا تمہیں فرقہ فرقہ کر دے اور ایک کو دوسرے (سے لڑا کر آپس) کی لڑائی کا مزہ چکھا دے۔ دیکھو ہم اپنی آیتوں کو کس کس طرح بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں (سورہ الانعام)
جو دین فرق مٹانے اور ایک لڑی میں پرونے آیا تھا، اس کو ہم نے بالکل الٹ بنا کر خانوں میں رکھ دیا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کوئی بھی فارم پر کرتے ہوئے جب میں مسلک کا خانہ چھوڑتا ہوں تو دوسرے کو اعتراض کیوں ہوتا ہے۔ جب کوئی تعارف کرواتا ہے تو اس کو صرف الحمد للہ میں مسلمان ہوں کہنے پر شرمندگی کیوں ہوتی ہے۔ کیا ہماری نظروں سے یہ آیت نہیں گزری کہ ’’اس (اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسول اللہؐ تم پر گواہ ہو جائیں۔ اور تم بنی نوع انسان پر گواہ ہو جائو‘‘ (سورہ الحج)
معاذ اللہ، نعوذ باللہ ہم اور ہمارے تکبر کیا اتنے بڑے ہیں کہ ہم کو اسلام اور اللہ کے بیان میں کوئی کمی لگتی ہے اور ہم اللہ کے دئیے ہوئے نام یعنی صرف مسلم کے ساتھ شیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی، سلفی، اہلحدیث یا بریلوی لگا کر پورا کرتے ہیں۔ ہم نے سب امامین کو زمانے کا استاد تسلیم کیوں نہیں کیا؟
اگر ایک ہی مسئلے پر سپیشلسٹ ڈاکٹرز کا پینل اختلاف رائے کا اظہار کرتا ہے، اگر ایک ہی کیس میں سپریم کورٹ کے ججز اختلافی نوٹ لکھتے ہیں اور اگر مظہر کائنات پر سائنسدان متنوع نظریات پیش کر سکتے ہیں تو ہم کبھی طب، قانون اور سائنس اور اس کے ماہرین پر انگلی نہیں اٹھاتے، ان کے پیچھے مسالک قائم نہیں کرتے اور ان کے مشترکہ نقائص نہیں نکالتے۔ بلکہ ایک طالب علم کی حیثیت سے سب کو مان کر اور پڑھ کر اپنے علم کی بنیاد رکھتے ہیں۔ تو پھر ہمیں کس چیز نے کاٹا ہے کہ ہم دربدر، رنگ برنگی دکانوں پر پھرتے ہیں اور اصل تو دور کی بات کیوں نقل کے دھوکے میں خالی رنگین پیکنگ اٹھائے لئے پھرتے ہیں! تو میری یہی چھوٹی سی الجھن ہے‘‘
اشفاق احمد مرحوم کی یہ تحریر مجھے جدہ سے مدینہ منورہ کی جانب سفر کرتے ہوئے کچوکے لگاتی رہی۔ ہمارے ساتھ کینیا، سویڈن، آذربائیجان، فرانس، جنوبی افریقہ، مالدیب، بوسنیا، فلپائن، اردن، الجزائر، سری لنکا، ترکمانستان، روس، برونائی، بھارت، یمن، مصر اور مالی سے تعلق رکھنے والے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے 35دوسرے ارکان بھی شریک سفر تھے جو کسی فرقہ ورانہ امتیاز کے باوصف رحمت اللعالمین کے مقدس شہرِ مدینہ میں داخل ہونے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے۔ اردن کی ناھدہ بنت محمد مخادمہ نے جو اردن کی ایک یونیورسٹی میں ابلاغ عامہ کی پروفیسر ہیں، عربی اور انگریزی میں بیک وقت عبور حاصل ہونے کے باعث ہم سب کے اتفاق رائے سے گائیڈ کی ذمہ داری سنبھال لی جو ہمارے مقامی عربی منتظمین کی ہر گائیڈ لائن کو انگریزی میں ترجمہ کرکے ہم تک پہنچاتی رہیں۔ ہم صبح 9بجے جدہ سے روانہ ہوئے اور ہمارے مقامی منتظمین نے اعلان کیا کہ ہم جمعتہ المبارک کی نماز مسجد نبویؐ میں ادا کریں گے۔ ان کا یہ اعلان کوئی جادو کی چھڑی محسوس ہوا کیونکہ بذریعہ سڑک جدہ سے مدینہ کا سفر بالعموم سات آٹھ گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ مسجد نبویؐ میں دوپہر ساڑھے بارہ بجے خطبہ جمعہ کا آغاز ہو جاتا ہے تو یہ ساڑھے چار گھنٹے میں کیسے ہمیں مدینہ منورہ پہنچا پائیں گے۔ ہمارا تجسس پورے سفر کے دوران برقرار رہا اور پھر جیسے یکایک ہوا کا ٹھنڈا جھونکا آ گیا ہو۔ ناھدہ نے مقامی منتظمین کا یہ اعلان انگریزی ترجمہ کرکے بتایا کہ ہم مدینہ منورہ کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں۔ جب ہمارا سامان مدینہ منورہ کے متعلقہ ہوٹل میں پہنچایا گیا تو اسی وقت خطبہ جمعہ کا آغاز ہو گیا اور مسجد نبوی کے وہاں سے چند سو قدم کے فاصلے پر ہونے کے باعث خطبہ جمعہ کے دوران ہی ہم نماز جمعتہ المبارک کی ادائیگی کے لئے مسجد نبوی کی چھت پر کی گئی صف بندی میں شامل ہو چکے تھے اور سبحان اللہ۔ نقشہ ایسا ہی بنا تھا کہ ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‘‘۔ یہاں کوئی کسی کو اپنے فرقے کے حوالے سے ٹوکنے اور نصیحتیں کرنے والا نہیں۔ کوئی ہاتھ چھوڑے ہوئے ہے، ہاتھ باندھے ہوئے، ٹخنے سے اوپر شلوار کئے ہوئے ہے یا اس کے پائنچے ٹخنے سے نیچے آ رہے ہیں کسی کو دوسرے کی جانب دھیان نہیں۔ سب خدا کے حضور سربسجود ہونے کے لئے ایک ہی صف میں ’’نہ کوئی بندہ رہا۔ نہ کوئی بندہ نواز‘‘ کی تصویر بنے کھڑے نظر آئے۔
(جاری)

مزیدخبریں