نظام خطرے میں؟

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پریہ پہلا موقع نہیں تھا کہ میڈیا کوکمرہ عدالت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی، نواز شریف کی پہلی پیشی کے بعد اسحاق ڈار کی پیشی کے موقع پر بھی میڈیا نے عدالتی کارروائی کے بعد ذرائع کی مدد سے ہی کوریج کی لیکن یہ بڑا ایشو نہیں بنا کیونکہ کیس سے منسلک وکلاءاور مسلم لیگ ن کے بڑے لیڈروں کو داخلے کی اجازت مل گئی تھی، لیکن اب کی بار تو کمال ہی ہو گیا ، نواز شریف کے ہمراہ جانے والے وزیر داخلہ کو جب رینجرزکے ایک جوان نے احاطہ عدالت میں یہ کہہ کر روک دیا کہ اجازت نہیں ہے، وزیرداخلہ کا دعویٰ ہے کہ رینجرز ان کا ماتحت ادارہ ہے،ان کے علم کے بغیر احاطہ عدالت میں تعیناتی کی گئی ہے جو ان کے خیال میں ریاست کے اندر ریاست بنانے کے مترادف ہے،ایسا کیا ہوا؟ کہ اس طرح کے انتہائی اقدام کی ضرورت پیش آ گئی، یہ بعد بعید از قیاس ہے کہ رینجرز کے کمانڈر نے از خود یہ فیصلہ کر لیا ہو کہ ایسا کیا جائے اور پھر وہ کر گزرے، یہ کراچی نہیں تھا یہ وفاقی دارالحکومت اسلام ٓباد تھا جس کا انتظام و انصرام براہ راست وزیر داخلہ کے پاس ہے، ان کی مقرر کردہ بیورو کریسی اور پولیس معاملات کی دیکھ بھال کرتی ہیں لیکن ایس ایس پی کی جانب سے لکھے جانے والے خط کی حقیقت بھی جاننا ضروری ہے کہ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو خط کس کے کہنے پر لکھا؟ کیا یہ خط ڈی آئی جی او ر آئی جی کے نوٹس میں تھا اگر تھا تو یہ بات سامنے کیوں نہیں لائی گئی اگر نہیں تھا تو پھر ان کی اجازت اور اطلاع کے بغیر خط کیسے لکھا گیا؟ ایس ایس پی کو ایسا خط لکھنے کا اشارہ کہاں سے ہوا؟ ڈپٹی کمشنر نے خط پر کوئی ایکشن نہیں لیا لیکن رینجرز کمانڈر نے اس پر عمل کر ڈالا ایک ایسے مطالبے پر وہ احاطہ عدالت تک آ گئے جہاں کی طلبی کی انہیں باضابطہ دعوت ہی نہیں دی گئی، اگر وہ اپنے اقدام میں درست تھے تو وزیر داخلہ کے طلب کرنے پر موقع سے غائب کیوں ہو گئے، وزیر داخلہ بہت غصے میں تھے استعفے تک کی دہمکی دے ڈالی لیکن عمل بہت مشکل ہے کیونکہ وزارت تو ان کے پاس پہلے بھی منصوبہ بندی و ترقی کی تھی جو پاکستان کے مستقبل کا لائحہ عمل کا تعین کرتی ہے لیکن جب سے وہ وزیر داخلہ ہوئے ہیں چال ڈھال ہی بدل گئی ہے اب انہیں اپنا آپ بھاری بھرکم محسوس ہونے لگا ہے، اکثر وزیر داخلہ کے پروٹو کول کا بھونپو بجاتے اپنے حلقہ انتخاب پہنچ جاتے ہیں، بہت کام کرنے کے عادی ہیں جس روز چارج سنبھالا تھا اسی شام ائر پورٹ پہنچ گئے تھے کہ امیگریشن کے عملے کو درست کر سکیں، وقت کا پہیہ آگے بڑھ گیا لیکن معمہ اپنی جگہ برقرار ہے،لیکن باخبر تجزیہ کار متفق ہیں کہ یہ سب ایسے ہی نہیں ہو گیا، ایسا تبھی ہوتا ہے جب ایسا کیا جاتا ہے یا کرنے کو کہا جاتا ہے، ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے، جب کراچی میں رینجرز ڈاکٹر عاصم کو اٹھا کر لے گئے، جب کئی سو ارب کی کرپشن کے کیس ان پر بنا دئیے گئے، درست یا غلط، یہ تعین کرنا عدالتوں کا کام ہے لیکن مسلم لیگ ن کی ہی مرکز میں قائم حکومت اس پر نہ صرف خاموش تھی بلکہ معنی خیز انداز میں مسکرا بھی رہی تھی کیونکہ ہدف فریق مخالف تھا، استاد محترم کہا کرتے تھے کہ میرے گھر کے دونوں جانب ہمسائے آگ کے شعلوں میں گھرے ہوں تب بھی خیر ہی خیر ہے کیونکہ میرا گھر محفوظ ہے، میری چیخ تب نکلے گی جب آگ میرے گھر کا رخ کرے گی، تو اب شاید نہیں بلکہ یقینا ہمسائے بلکہ فریق مخالف کے گھر لگی آگ مسلم لیگ ن کے گھر کی دیواروں سے اندر آ چکی ہے، شعلے بھڑک رہے ہیں، تپش کی شدت قیادت تک پہنچ رہی ہے اور کوئی ادارہ ساتھ دینے کو تیار نظر نہیں آرہا،ایسے میں بڑے دل کا مظاہرہ کریں گے آصف علی زرداری کہ وہ ساتھ دینے اور ساتھ چلنے پر آمادہ ہو جائیں توتپش میں کمی ممکن ہے ورنہ یہ تو جھلسا دینے والی آگ ہے جو کسی طور قابو میں آتی نظر نہیں آرہی، اب کہا جا رہا ہے کہ نظام خطرے میں ہے، ایسا کہا ضرور جا رہا ہے لیکن لگتا نہیں کیونکہ جن سے نظام کو خطرہ ہو سکتا ہے وہ پر اعتماد ہیں کہ بد ترین صورتحال کے باوجود کچھ بھی ان کی دسترس سے باہر نہیں، وہ جب اور جہاں چاہیں گے ، صورتحال کو جس رخ موڑنا چاہیں گے، موڑ لیں گے تا کہ قومی سلامتی کو لاحق خطرات دور رہیں، نوشتہ دیوار ہے کہ قومی اداروں کا سمجھ بوجھ سے کام لینا ہو گا، 1977 میں جنرل ضیاءالحق نے شب خون مارا تو کہا گیا کہ ملک کی سلامتی خطرے میں تھی یہی بات 1999 میں جنرل مشرف کی تقریر میں بتائی گئی، حالات اب بھی خراب کہے جا رہے ہیں لیکن یہ گردان صرف ان عناصر کی زبان پر ہے جن کی سانس گھٹن کے ماحول میں آسانی سے چلتی ہے، ان عناصر کی امیدیں اس بار بر نہیں آنے والی کیونکہ قومی اداروں کی نگاہ اقتدار پر نہیں قومی سلامتی سے متعلقہ امور پر ہے۔

ای پیپر دی نیشن