اسلام آباد/ لاہور (وقائع نگار خصوصی+ سٹاف رپورٹر+ سپیشل رپورٹر) وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن ایکٹ 2017ء میں ختم نبوتؐ پر ایمان کا خانہ ختم کرنے کا الزام مسترد کر دیا۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے انوشے رحمن کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہا ختم نبوت سے متعلق شق نہیں نکالی، توبہ استغفار ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ انوشے رحمن نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ سمجھدار ہیں، وہ جانتے ہیں کہ بل کے حوالے سے تمام جماعتوں سے مشاورت کی گئی، انتخابی اصلاحات بل موجودہ حکومت نے متعارف کرایا وہ چابیوں پر نہیں چلیں گے، جب ہر کمیٹی سے بل منظور ہو گیا تو اعتزاز احسن کے کان میں کس نے پھونک مار دی، پی ٹی آئی پر افسوس کرنا چھوڑ دیا ہے۔ مزید برآں قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر پوسٹل سروس مولانا امیر زمان نے کہا ہے کہ پیر کے روز انتخابات بل منظور ہوا، ختم نبوت کے مسئلہ کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کاغذات نامزدگی کے ساتھ ختم نبوت کا حلف نامہ لگا ہوا ہے۔ یہ الیکشن رولز میں ترمیم ہوئی ہے کوئی آئینی ترمیم نہیں، ہمارا ختم نبوت پر اعتماد ہے، ملک میں خراب حالات نہ پیدا کئے جائیں، ہم ختم نبوت کے حلف میں ترمیم کی اجازت ہر گز نہیں دیں گے۔ وقائع نگار خصوصی کے مطابق وفاقی وزیرقانون وانصاف زاہد حامد اور وزیر مملکت برائے آئی ٹی انوشہ رحمان نے کہا ہے الیکشن اصلاحات قانون میں ختم نبوتﷺ کا کالم ہوبہو موجود ہے، بل منظوری کے وقت سب خاموش رہے اور اب شور مچا رہے ہیں ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اسے انتخابی اصلاحات کے قانون سے ختم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سٹاف رپورٹر کے مطابق قومی اسمبلی کے ارکان نے انتخابی اصلاحات بل میں ختم نبوت سے متعلق ایک متنازعہ ترمیم کو ختم کرنے کیلئے متحد ہونے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے 2017ء کے انتخابی اصلاحات بل میں ختم نبوت کی شق میں کوئی تبدیلی نہیں کی ، اس حوالے سے سوچ بھی نہیں سکتے‘ اپوزیشن پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہے اور بل کو پڑھے بغیر تنقید کی جا رہی ہے۔ ڈپٹی سپیکر مرتضی جاوید عباسی نے رولنگ دی حکومتی ترمیم کی وجہ سے ختم نبوت کے قانون میں کوئی سقم پیدا ہونے کا اندیشہ ہے تو اس میں ترمیم لائی جا سکتی ہے۔ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے حکومت کو مشورہ دیا اس انتہائی نازک اور حساس معاملہ کو سمجھ داری سے نمٹایا جائے اور اسے طوالت کا شکار نہ بنایا جائے۔ جماعت اسلامی کے ارکان نے کہا ختم نبوت کے ایمان کے حلف کو اقرار میں بدلنے سے قانونی مضمرات پیدا ہو گئے ہیں۔ وفاقی وزیر ہائوسنگ نے کہا اس معاملہ پر پوری دنیا سے ٹیلی فون آ رہے ہیں۔ ختم نبوت کا معاملہ تمام کارروائی پر چھایا رہا۔ اے این پی کے سوا اپوزیشن کی پیپلز پارٹی اور قوم پرست جماعتوں نے اس معاملہ پر بحث میں سرگرمی نہیں دکھائی لیکن حکمراں مسلم لیگ، اس کی اتحادی جے یو آئی، اپوزیشن کی جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ارکان نے ختم نبوت کے حق میںپرجوش اور جذباتی تقاریر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت متنازعہ الفاظ ختم کرنا چاہے تو وہ تعاون کیلئے تیار ہیں۔ تنقید کا جواب دیتے ہوئے پوسٹل سروسز کے وزیر مولانا امیر زمان نے کہا کاغذات نامزدگی فارم میں واضح طور پر ختم نبوت کی شق موجود ہے، اس حوالہ سے شیخ رشید کا بیان درست نہیں تھا۔ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا نئی قانون سازی سے ختم نبوت کے سلسلہ میں لفظ ’’حلف‘‘ استعمال کیا جسے اب لفظ’’اقرار‘‘ سے بدل دیا گیا ہے۔ ہمیں کسی نے اس ترمیم سے آگاہ نہیں کیا۔ حلف کو اقرار سے بدلنے کے قانونی مضمرات ہیں کیوں کہ جھوٹے حلف پر سزا ہے لیکن جھوٹے اقرار پر کوئی سزا نہیں۔ وفاقی وزیر ہائوسنگ اینڈ ورکس اکرم درانی نے کہا نامزدگی کے فارم پر لفظ ’’حلفیہ طور پر‘‘ شامل نہیں کیا گیا تو اس پر مل بیٹھ کر مشاورت سے معاملہ حل کیا جائے۔ لاہور سے سپیشل رپورٹر کے مطابق امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے واضح کیا ہے انتخابی اصلاحات میں امیدوار کے لیے ختم نبوت کا ڈکلیئریشن شامل ہے، عوام کو گمراہ کرنے والے مذہبی عناصر سیاسی عصبیت کا شکار ہیں اور انہوں نے بدگمانیوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ عقیدہ ختم نبوت کے پہلے بھی محافظ تھے، آج بھی ہیں اور کل بھی رہیں گے۔ میں اس سلسلے میں سیاسی اور مذہبی رہنمائوں سمیت تمام ناقدین کو مناظرے کا چیلنج دیتا ہوں۔ مرکز اہل حدیث راوی روڈ سے جاری ایک اعلامیہ میں پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ solemn affirmation کا مطلب حلف ہی ہوتا ہے۔ تنقید کرنے والے علماء انگریزی سیکھیں۔ عہدے اور مناصب کیا چیز ہیں اپنی جانیں بھی عقیدہ ختم نبوت پر قربان کردیں گے۔ ہم نے پنجاب حکومت کا قرآن وسنت سے متصادم تحفظ خواتین بل مستردکیا تھا اور میں نے میاں شہباز شریف سے دوٹوک انداز میں کہا تھا دین اور دینی اقدار عقائد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم محمد عربیﷺ کے دین کے پیروکار ہیں کسی سیاسی لیڈر کے نہیں۔ اہل حدیث کٹنا گوارا کرسکتا ہے جھکنا نہیں۔ ہمیں آرمی چیف پر شک پڑا ہم نے اس وقت بھی آواز اٹھائی اور اعلیٰ حکام اپنے عقیدے کی وضاحت پر مجبور ہوئے۔ مشرف کی روشن خیالی کو مستردکیا اس دور کے تحفظ خواتین بل کو قرآن و سنت سے متصادم قراردیا۔ پروفیسر ساجد میر نے مزید کہا الیکشن کمیشن ترمیمی بل 2017 کے کل 88 صفحات ہیں، صفحہ نمبر 79 میں امیدوار کے اقرار نامہ میں شق نمبر 3 میں ختمِ نبوتﷺ کے حوالے سے شرط واضح الفاظ میں درج ہے: ’’میں حضرت محمدﷺ کی حتمی کاملیت پر ایمان رکھتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاؑء میں سے آخری نبی ہیں، میں اقرار کرتا ہوں کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، میں کسی بھی ایسے شخص کا پیروکار نہیں ہوں، نہ ہی میں قادیانی یا لاہوری گروپ سے تعلق رکھتا ہوں، نہ ہی خود کو احمدی کہلاتا ہوں۔‘‘ (نوٹ:- یہ پیراگراف صرف مسلمان امیدواروں کیلئے ہے، غیر مسلم امیدواروں پر لاگو نہیں) اسی طرح آئین پاکستان کی روسے صدر مملکت اور وزیراعظم کے حلف کا متن کچھ یوں ہے: ’’میں مسلمان ہوں اور وحدت و توحید قادر مطلق اللہ تبارک تعالٰی، کتب الٰہی جن میں قرآن پاک ختم الکتب ہے، نبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت خاتم النبین جن کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا، روز قیامت اور قرآن پاک و سنت کی جملہ مقتضیات و تعلیمات پر ایمان رکھتا ہوں کہ میں خلوص نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گا۔ کہ بحیثیت صدر پاکستان میں اپنے فرائض، کارہائے منصبی ایمانداری، اپنی انتہائی صلاحیت اور وفاداری کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور قانون کے مطابق اور ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری، سالمیت، استحکام، بہبود اور خوشحالی کی خاطر انجام دوں گا۔ کہ میں اسلامی نظریہ کو برقرار رکھنے کیلئے کوشاں رہوں گا جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔ کہ میں اپنے ذاتی مفاد کو اپنے سرکاری کام یا اپنے سرکاری فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا۔ کہ میں اسلامی جمہوری پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ اور دفاع کروں گا۔ کہ میں ہر حالت میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بلاخوف و رعایت اور بلارغبت و عناد قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔ اور یہ کہ میں کسی شخص کی بلاواسطہ یا بالواسطہ کسی ایسے معاملے کی نہ اطلاع دوں گا اور نہ اسے ظاہر کروں گا جو بحیثیت صدر پاکستان میرے سامنے غور کیلئے پیش کیا جائے گا یا میرے علم میں آئے گا بجز جبکہ بحیثیت صدر اپنے فرائض کی کماحقہ انجام دہی کیلئے ایسا ضرور ہو۔ اللہ تعالیٰ میری مدد اور رہنمائی فرمائے۔ آمین‘‘ ان میں ایک لفظ کی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اس سب کے باجود کسی مذہبی یا سیاسی رہنما کو کوئی ابہام ہے تو میرے سامنے بیٹھ جائیں۔ میں اسے دور کرنے کے لیے تیار ہوں۔