انتخابی اصلاحات قانون سپریم کورٹ اور عدالت عالیہ میں چیلنج

Oct 04, 2017

لاہور+ اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) انتخابی اصلاحات بل کو سپریم کورٹ اور عدالت عالیہ لاہور میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی نے قانون کیخلاف عدالت جانے جبکہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس کی منظوری کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسکے خلاف تحریک چلانے اور عدالتوں میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عوامی تحریک کے رہنما اشتیاق چوھدری ایڈووکیٹ کی دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ انتخابی اصطلاحات بل کی منظوری سے نااہل شخص بھی ملک کی باگ ڈور سنبھال سکتا ہے۔ نئے بل کی منظوری سے قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ انتخابی اصطلاحات بل کی منظوری آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی خلاف ورزی ہے۔کاغذات نامزدگی سے ختم نبوت کا کالم ختم کرنا آئین کے آرٹیکل 37 اور 38 کی خلاف ورزی ہے۔ قومی اسمبلی سے منظور انتخابی اصطلاحات قانون کو آئین سے متصادم ہونے کی بناء پرکالعدم قرار دیا جائے۔ لاہور ہائیکورٹ بار کے عہدیداروں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ نااہل شخص کو پارٹی صدر بنانے کے لئے ترمیم کی مذمت کرتے ہیں۔ سیکرٹری ہائیکورٹ بار عامر سعید راں نے کہا کہ کرپشن پر نااہل قرار دئیے گئے شخص کے لیے ترمیم ناقابل قبول ہے۔ اگر یہ ترمیم ختم نہ کی گئی تو ملک بھر کے وکلا تحریک چلائیں گے۔ ارکان پارلیمنٹ کے حلف نامے میں ختم نبوت کے حوالے سے ترمیم کسی بھی مسلمان کے لئے قابل قبول نہیں۔ نائب صدر راشد لودھی نے کہا کہ ایک شخص کے لئے ملک کے اداروں سے ٹکرائو کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف آگ سے کھیل رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 2اکتوبر کو پارلیمنٹ کا منظور کردہ بل آئین کی روح سے متصادم ہے کیونکہ آرٹیکل 63/a کے تحت پارٹی صدر کسی ممبر پارلیمنٹ کی اہم امور پر قانون سازی کو کنٹرول کرتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 3 استحصال سے روکتا ہے‘موجودہ قانون سازی کو آئین کے بنیادی سٹرکچر سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جائے۔ میڈیا سے بات گفتگو میں سراج الحق نے کہا کہ چوک چوراہوں پر فیصلے کرنے ہیں تو عدالتوں میں جانے کی کیا ضرورت ہے۔ پانامہ کیس میں نوازشریف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’کیا صرف ان عدالتی فیصلوں کو تسلیم کریں گے جو آپ کے حق میں ہوں گے‘۔ پانامہ میں شامل تمام افراد کا احتساب ہونا چاہئے، ’کسی ایک فرد کا نہیں باقی 436 افراد کا احتساب بھی ہونا چاہئے‘ کیونکہ کرپشن اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی کی کرپشن کے خلاف مہم جاری ہے اور ملک میں قانون کی حکمرانی کے لیے کوششیں کرتے رہیں گے۔ پاکستان عوام نے بنایا اور وہ ہی اس کو ترقی دیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جمہوریت مضبوط ہو جبکہ خبردار کیا کہ اداروں کو چیلنج کرنے سے بحران کی کیفیت پیدا ہوگی اور حکومت کے موجودہ رویے سے جمہوریت اور نظام کو خطرہ ہے۔ تمام مذہبی جماعتوں اور قانونی ماہرین سے مشاورت کے لئے 5 اکتوبر کو اجلاس ہو گا۔ جمہوریت کو کوئی خطرہ ہوا تو ذمے دار موجودہ حکمران ٹولہ ہو گا۔ ہم چاہتے ہیں فرد اور خاندان کے بجائے میرٹ اور آئین کی حکمرانی ہو‘ جمہوریت کو خود حکومت کے روئیے سے خطرہ ہے۔ اگر ہماری سیاست اور جمہوریت فرد اور خاندان کے گرد گھومتی ہے تو یہاں جمہوریت نہیں آمریت قائم ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ کی باتوں سے لگتا ہے ان کی گفتگو ڈان لیکس کا تسلسل ہے ، اداروں سے تصادم کر کے اب یہ سیاسی شہید بننے کی کوشش کر رہے ہیں، حکومت کی اپنی ذات بچانے کی ترمیم کو عدالت میں چیلنج کر ینگے، عوام کے حقوق کا ہر سطح پر دفاع کریں گے، بابر اعوان نے کہا ہے کہ نااہل وزیراعظم کو نااہل اکثریت نے پروانہ دیا‘ اس قانون کیخلاف آواز اٹھائیں گے۔
اسلام آباد (محمدصلاح الدین خان) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی حکومت کی جانب سے پاس کئے گئے انتخابی اصلاحاتی بل 2017ء کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیدیا ہے جبکہ حتمی فیصلہ 7 اکتوبر کو بار کے طلب کردہ اجلاس کے بعد مشاورت سے کیا جائیگا۔ جنرل سیکرٹری آفتاب باجوہ نے نوائے وقت سے گفتگو میں کہا کہ پارلیمان کی جانب سے پاس کردہ بل آئین و قانون کے منافی ہے، پارلیمنٹ ایک مقدس پلیٹ فارم ہے جہاں اسلام کی اساس کے منافی کوئی قانون پاس نہیں کیا جاسکتا۔ پارلیمنٹرین کو عوام منتخب کرتے لہٰذا منتخب نمائندوں کو بھی عوام کے جذبات احساسات کا احترام کرنا چاہئے، آئین کے متصادم قوانین پاس کرنے کا مطلب ملک کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ حکومت کے ایسے غیر دانش مندانہ اقدامات آمریت کی راہ ہموار کرنے کا سبب بنتے ہیں، آئین کے آرٹیکل 62,63 کا مطلب صادق اور امین ہونا ہے جو محترم ہستی کی صفات سے منسوب ہے۔ اس میں ترمیم کرکے ایک نااہل فرد کو اہل قرار دیا گیا، کوئی ناہل شخص کس طرح ایک سیاسی پارٹی کی سربراہی کرتے ہوئے نظام حکومت میں مداخلت کرسکتا ہے۔ بار کے دیگر ممبران سے مشاورت کیلئے 7 اکتوبر کو ایک اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں انتخابی اصلاحاتی بل 2017ء چیلنج کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا جائیگا۔

مزیدخبریں