اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں عمران نااہلی کیس کی سماعت کے دوران فریق وکلاء نے دلائل مکمل کر لئے ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ فاضل عدالت تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین کے حوالے سے بھی وکلاء کو سن کر کیس کا فیصلہ کرے گی۔ دوران سماعت عدالت نے قرار دیا کہ عمران خان نے جمائما سے لیے قرض کو ظاہر نہیں کیا اب عدالت اس بات کا جائزہ لے گی کہ جائیداد ظاہر کرنے کے بعد قرض ظاہر کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے، عدالت اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ عمران خان کے لندن فلیٹ کے لئے رقم کہاں سے حاصل کی گئی ۔ عدالت نے عمران خان کے وکیل کو کیس میں اضافی دستاویزات جمع کرانے کی اجازت دیتے ہوئے مزید سماعت آج تک ملتوی کردی ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے عمران خان نااہلی کیس میں جواب الجواب مرحلے کی سماعت کی۔ اکرم شیخ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ عمران خان کے 2خطوط پر ایڈریس مختلف ہیں، خطوط کے لیے عمران خان کینسر ہسپتال کے لیٹرہیڈ استعمال ہوئے اور دونوں خطوط میں فیکس نمبر بھی مختلف ہیں۔ عمران خان کے دستخط دونوں خطوط پر مختلف ہیں۔ چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ شیخ صاحب یہ آپ کا مقدمہ نہیں ہے آپ کامقدمہ ہے کہ آف شور کمپنی کو ظاہر نہیں کیا گیا۔ اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان نے اپنی 1982سے 2002تک آمدن 21 ملین بتائی جبکہ بنی گالہ اراضی کی تعمیر پر 70 ملین کے اخراجات آئے اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے اکرم شیخ سے کہاکہ کیا جن نکات پرآپ دلائل دے چکے ہیں وہ کمزور ہیں، ہم سے اکائونٹنگ کاکام نہ کروائیں آپ کے منہ سے قانون کی بات اچھی لگتی ہے۔ اکرم شیخ نے جواب دیا کہ نیازی سروسز کمپنی کے اکائونٹ میں موجود ایک لاکھ پاونڈ کس کا تھا جبکہ عمران خان نے این ایس ایل کے اثاثے 2002 اور1997 کے کاغذات میں نہیں بتائے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ پیسہ کہیں بھی رکھا جائے کسی کا کیا جاتا ہے۔ اکرم شیخ نے کہاکہ کسی کا کچھ نہیں جاتا لیکن قانون کا بہت کچھ جاتاہے عدالت خود دیکھ لے کہ این ایس ایل کو ظاہر کیا گیا۔ اکرم شیخ نے کہاکہ ان کے موکل کا مقدمہ اثاثے ظاہر نہ کرنے کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ کو ایک لاکھ اسی ہزار ڈالرز قرض سے زیادہ ادا کیے۔ جتنا قرض تھا اتنا ہی اداکرنا چاہیے تھا۔ اس دوران نعیم بخاری نے عدالت میں پہنچ کر بتایا کہ ان کی طبیعت گذشتہ روزسے ناساز ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اکرم شیخ نے سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں ان کے جوابات آپ کو دینا ہونگے۔ اکرم شیخ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا قرض لینا الیکشن کمیشن کے ریکارڈ سے ثابت نہیں ہوتا اور جو مقدمہ ثابت شدہ ہے اسی پر زور ڈالوں گا کیونکہ یہ ثابت شدہ ہے کہ جمائمہ سے عمران خان نے قرض لیا۔ کاغذات نامزدگی میں قرض ظاہر نہیں کیا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ یہ میاں بیوی کے درمیان معاملہ تھا تو اکرم شیخ نے جواب دیا کہ معاملہ باپ بیٹے کا ہو یا میاں بیوی کا قانون کی نظر میں دیکھنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان نے قرض ظاہر نہیں کیا لیکن جمائمہ کے نام اراضی کو ظاہرکر دیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ضمنی جواب میں عمران خان نے کہا ہے کہ زمین جمائمہ کے لیے خریدی جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ آخری جواب میں عمران خان نیا موقف پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں زمین سے انکا تعلق نہیں۔ وہ کہتے ہیں زمین براہ راست جمائما نے خریدی۔ اکرم شیخ نے کہاکہ مجھے بتادیں میں عمران خان کے کس جواب پر انحصار کروں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جواب میں تضاد کدھر ہے؟ مان لیں جائیداد بے نامی تھی۔ جواب میں لکھا ہے کہ ادائیگی جمائمہ نے بینک کے ذریعے بھیجی رقم سے کی تاہم دیکھنا یہ ہے کہ بے ایمانی ہوئی ہے اور کیا کوئی منی لانڈرنگ ہوئی ہے۔ بنی گالہ اراضی بے نامی ہو تو بھی فرق نہیں پڑتا۔ اصل مالک جمائما تھیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عمران خان نے برطانیہ سے رقم آنے کا ریکارڈ دکھا دیا، جمائما نے 65لاکھ عمران خان کو پہلے بطور تحفہ دیئے، 5لاکھ 62ہزار پاونڈ بعد میں تحفہ کیے جس پر اکرم شیخ نے موقف اپنایا کہ 5رکنی بینچ کا فیصلہ دیکھ لیں کیا تنخواہ لینے کا ارادہ تھا کہ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہوسکتا ہے پانامہ فیصلہ اس مقدمے کے لیے متعلقہ نہ ہو یہ میاں بیوی کے درمیان معاملہ تھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ میں نے پہلے بھی کہا تھا وہ فیصلہ پڑھ لیں، اس موقع پر اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عدالت قرار دیدے کہ میاں بیوی کے معاملہ پر عدالتی قانون ڈکلیئر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تحفہ اور قرض میں فرق ہے۔ قرض ہر قانون کے تحت قرض ہوتا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفار کیاکہ عمران خان نے جمائما کو جو رقم ادا کی وہ قرض تھا یا تحفہ؟ اکرم شیخ نے جواب دیا کہ عمران خان خود کہتے ہیں وہ قرض تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عمران خان نے بنی گالہ اراضی کو ظاہر کیا لیکن جمائمہ سے لیے قرض کوظاہر نہیں کیا اس لئے دیکھنا یہ ہے کہ جائیداد ظاہر کرنے کے بعد قرض ظاہرکرنے سے فرق پڑتاہے جبکہ صرف 6.5فیصد قرض کی منی ٹریل ثابت نہیں ہوئی۔ اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان کو ایک لاکھ پائونڈ ظاہر کرنے چاہیے تھے۔ عدالت کو نیازی سروسز لمیٹڈ اکائونٹ کی 2003کی تفصیلات نہیں دی گئیں، کیا ایک لاکھ پائونڈ عمران خان کا اثاثہ نہیں تھا۔ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ این ایس ایل کو 3دیگر کمپنیاں چلا رہی تھیں اس لئے یہ رقم عمران خان کا اثاثہ نہیں تھی تاہم ایک لاکھ پائونڈ کی رقم عمران خان کے کنٹرول میں تھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم کسی کی ایمانداری کا جائزہ لے رہے ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ عمران خان 2002اکتوبر میں رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ کامیابی کا نوٹیفکیشن اثاثوں کی تفصیل دینے پہ ظاہر ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بیوی سے قرض لینے اور واپس کرنے میں کوئی بدنیتی ظاہر نہیں ہوتی، اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان اپنے موقف پر قائم نہیں رہتے باربار موقف بدلتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عمران خان نے جو کاغذات لگائے گئے وہ مسترد ہوگئے تھے اس لئے کاغذات مسترد ہونے پر اپیل دائر کی۔ اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان کی اپیل منظور ہونے پر وہ ممبر قومی اسمبلی بن گئے اورپرویز مشرف عمران خان کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ کیا آپ چاہتے ہیں 2002 میں غلط فارم بھرنے پر عمران خان کو نااہل کر دیں؟ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا 2013 کے الیکشن میں عمران خان نے غلط بیانی کی ہے؟ اکرم شیخ نے کہاکہ این ایس ایل کمپنی عمران خان نے 2013 میں ظاہر نہیں کی ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عمران خان کہتے ہیں کمپنی ان کے نام پر نہیںہے ۔اکرم شیخ نے سوال اٹھایا کہ تو کیا آپ عمران خان کا موقف مان لیں گے۔چیف جسٹس نے کہاکہ حنیف عباسی کی درخواست میں نہیں لکھا کہ جمائمہ سے لیا قرض ظاہر نہیں کیا۔اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان پہلے آف شور کمپنی اور پھر اپنی اہلیہ کے پیچھے چھپتے رہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں غیر قانونی بات کیا ہوتی ہے۔پاناما کیس میں اثاثہ ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔چیف جسٹس نے کہاکہ عمران خان نے بنی گالہ اراضی کو ظاہر کیا۔اکرم شیخ نے کہاکہ عدالت نے فیصلہ کرنا ہے ۔عمران خان مرد بنیں اپنی جائیداد ظاہر کرے ۔عمران خان مرد بنے سینہ تان کر کہے اراضی انہوں نے خریدی ہے اورپوری قوم کی نظریں عدالت پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ عمران خان ملک کے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ ہم نے نوٹ کر لیا ہے کہ ایک لاکھ پائونڈ ظاہر نہیں کیا گیا اورایک لاکھ پائونڈ عمران خان کا اثاثہ تھا۔ اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان نے گرینڈ حیات ہوٹل کے فلیٹ کو بھی ظاہر نہیں کیا اورنہ لی گئی تنخواہ ظاہرنہ کرناکونسی بدنیتی تھی جبکہ عمران خان نے بھی تسلیم کیاکہ فلیٹ انھوں نے ظاہر نہیں کیا جبکہ عدالت نے عمران خان کو موقف پیش کرنے کے 18 مواقع دیئے نواز شریف کی نااہلی قابل وصول تنخواہ پر ہوئی جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ وہ تنخواہ ظاہر نہیں کی گئی تھی اکرم شیخ نے کہاکہ عدالت 5ممبربینچ کے فیصلہ کی پابند ہے ، جسٹس عمرعطابندیال نے کہاکہ پاناما معاملہ میں 5 ججز کا اپنا اپنا الگ فیصلہ ہے جس پر اکرم شیخ نے کہاکہ عدالت نے ججزکی ذاتی رائے کونہیں آرڈر آف کورٹ کودیکھنا ہے ، نیازی سروسزکمپنی پہلے دن سے اثاثہ تھی کیونکہ اگریہ فروخت ہوتی توفائدہ عمران خان کوہوتاانہوں نے کہاکہ عدالت کے مانگنے پر نیازی سروسز کا مکمل ریکارڈ پیش نہیں کیاگیااورگرینڈ حیات فلیٹ کیلئے دیاگیا ایڈوانس اثاثہ تھااکرم شیخ نے کہاکہ عدالت جوفیصلہ کرے گی قبول ہوگا تاہم الیکشن فارم کے مطابق گرینڈ حیات فلیٹ کا ایڈوابس بھی ظاہرکرناچاہیے تھا تاہم عدالت فیصلہ محفوظ کرکے بھی انکوائری کرسکتی ہے ۔ عمران خان نااہلی کیس کی سماعت مکمل ہوئی تو عدالت نے قرار دیا کہ ہم کیس کا فیصلہ محفوظ نہیں کررہے۔ جہانگیر ترین نااہلی کیس کی سماعت کاآغازآج بروز بدھ کو ہوگا۔