بانی جماعت اسلامی ، مفسر قرآن ، صاحب تفہیم القرآن مولانا سید ابوالاعلیٰ مودوی ؒ ہمہ گیر ، ہمہ جہت اور عالم اسلام پر گہرے اثرات مربت کرنے والی شخصیت تھے ۔ اللہ نے انہیں تحریر و تقریر کی پر اثر نعمت سے مالا مال کیا تھا ۔ بیسویں صدی کاآغاز ملت اسلامیہ کے لیے ان بدترین حالات میں ہوا جس کا آج تصور کرنا بھی محال ہے لیکن اس تاریک دور میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل و کرم سے امت کو ایسے افراد سے نوازا جنہوںنے ہر میدان میں چومکھی لڑائی لڑی اور تاریکیوں کا سینہ چیر کر شمع ہدایت و رسالت کی روشنی اس طرح پھیلادی کہ غفلت ، غلامی اور مظلومیت کی رات چھٹ گئی ، احیائے اسلام اور امت کے ایک عالم گیر قوت کی حیثیت سے ابھرتے آثار صبح نو کی طرح نمودار ہو گئے۔ اللہ کے پسندیدہ نفوس جن سے اس نے یہ کام لیا ، ان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کو ایک منفرد مقام حاصل ہے ۔ سید مودودی صرف پاکستان ہی کے نہیں پوری امت مسلمہ اور ساری انسانیت کا سرمایہ اور میراث تھے ۔ نابغہ روزگار شخصیت ، عظیم مفکر ، بے باک قائد ، زمانہ ساز مدبر ، حیات آفریں شخصیت اور ایک نئے دور کے نقیب تھے ۔ ان کی شخصیت کا بڑا وصف یہ تھا کہ وہ اللہ کے تابعدار بندے اور رسول اللہ ،صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق و شیدائی اور مطیع فرمان تھے ۔ 1938 میں حالات بڑے حوصلہ شکن تھے دور دور تک امت کی شیرازہ بندی کے آثار نہیں تھے کئی اطراف میں انفرادی ، محدود کوششیں ہورہی تھیں ایسی کیفیت میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تھی ، یہ دعا سیدمودودی کی شخصیت کی آئینہ دار ہے۔
”اے پروردگار میں ایک مجاہد کے ایمان کا طالب ہوں ۔ ایسا دل مانگتا ہوں جو سمندر کی طوفانی موجوں کے مقابلے میں ٹوٹی ہوئی کشتی لے جانے پر بے جھجک آمادہ ہو جائے ۔ ایسی روح مانگتا ہوں جو شکست کھانے اور سپر رکھ دینے کا تصور بھی نہ کر سکتی ہو ۔“
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی ساری زندگی جہد مسلسل میں گزری اور ہر ہر محاذ پر انہوںنے مدلل تحریر ، دلیل کی طاقت پر مبنی گفتگو، شائستہ زبان و کلام کے ساتھ انسانوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ سید مودودی کی 76 سالہ زندگی حق پر ستی اور حق کے لیے جان کی بازی لگادینے سے عبارت ہے ۔ بیسویں صدی میں اللہ کے دین کی اقامت کے لیے جو بھی روشنی پیدا ہوئی اسے جلا بخشنے کے لیے اللہ کے فضل اور اس کی سنت کے مطابق ان کا منفرد کردار ہے ۔ سید مودودی نے لوگوں کو اپنی ذات ، جماعت یا گروہی مسلکی تعصب کی طرف نہیں صرف اور صرف قرآن و سنت کے پیغام اور نصب العین کی طرف بلایا ۔ انہوںنے اس پیغام کو عام کیا ، استحکام دیا ۔ پوری امت کو نئی جہت دی کہ قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جاﺅ ۔ سنت رسول ، عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے سید مودودی شمشیر برہنہ تھے ۔ مسئلہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے تحریر و تقریر کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی جب اس بندہ حق کو ظالم اقتدار نے سولی پر چڑھانے کی سزا کا اعلان کیا ، تب بھی ان کے ایمان اور ان کی شان ایک سچے بندہ رحمن کے شایان شان تھی ۔” میں کسی سے رحم کی اپیل نہیں کروں گا اور اپنا معاملہ اپنے خدا کے حوالے کرتاہوں زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں ، آسمان پر ہوتے ہیں اگر وہاں میری موت کافیصلہ ہو چکاہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی اگر وہاں میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔ “ عزم صمیم نے ظالم قوتوں کو ہی سپر ڈالنے پر مجبور کیا اور الحمدللہ بااختیار اقتدار بھی اعلان کردہ سزا پر عمل درآمدنہ کر سکا ۔ سید مودودی کا شعو ر حق نور نبوت سے منور تھا ۔ یہی ان کی استقامت اور طاقت تھی ۔
سید مودودی ایک عظیم انسان تھے جنہوںنے موجودہ جامع اسلامی بیداری کی بنیاد یں رکھیں ۔آپ دنیا بھر میں ان تمام شخصیات سے رابطے میں رہتے تھے جن میں حالات تبدیل کرنے کا عزم اور جہدوجہد کا جذبہ و روشنی اور صلاحیت تھی ۔اس طرح دنیا بھر میں اسلامی بیداری کے خلاف ہونے والے کام کے سدباب کے لیے مسلمانوں میں جاری اسلامی تحریکوں کے درمیان قرآن و سنت اور امت رسول اللہ کی بنیاد پر نظریاتی پختہ رابطے ہو گئے اسی لیے عالم اسلام میں علامہ مودودی اسلامی مقاصد کے لیے بے مثال اور جرا¿ت مندانہ کوششوں کی وجہ سے سب مسلمانوں ، تحریکوں کے لیے عظیم دینی قائد اور رہنما تسلیم کیے جاتے ہیں ۔عالم اسلام میں یہ اعتراف پوری قوت سے موجود ہے کہ امام المودودی قرآن کی جامع حکومت کے عاشقوں کی صف اول کے قائد تھے ۔
٭۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ سماجی و انسانی حقوق کے میدان میں افکار تازہ پیش کیا کہ اسے مرکزی موضوع بناکر ہم کلام ہونا چاہیے ۔ محدود قومیت کے تصور اور ان عناصر کے خلاف آپ کا جہاد محتاج تعارف نہیں آپ نے یہ فکر اجاگر اور پختہ کی کہ حقیقی وطنیت وہ ہے جو مکمل طور پر اسلام سے ماخوذ ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کا جو فطری نظام بنایا ہے وہ اس کے رب اور رحیم ہونے کا تقاضا ہے اس کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ خاتم الانبیاء کے بعد اللہ تعالیٰ تمام انسانوں میں سے کچھ خوش نصیب لوگوں کو اس کارنبوت کی خدمت ، تعمیل اور دعوت عام کے لیے منتخب کرتاہے اس سلسلے میں بیسویں صدی میں تجدید امت اور احیائے دین کے لیے جن افراد نے اللہ کے اس نظام اور اس کے طے کردہ منصوبے کے تحت کام کیا ، ان میں جمال الدین افغانی ، شکیب ارسلانؒ ، حلیم پاشا ، محمد عبدہ ، رشید رضاؒ ، ابوالکلام آزادؒ ، علامہ اقبال ؒ، حسن البنا ، بدیع الزمان نورسی جیسی اولوالعزم شخصیات شامل ہیں اس درخشاں کہکشاں میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کا بھی ایک بہت ہی منفرد اور کئی حوالوں سے مرکزی مقام ہے ۔
1941 ءمیں جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد مولانا مودودی نے معروف شخصیات کو جماعت اسلامی کے پروگرام اور مقاصد سے آگاہ کرنے کے لیے رفقا کی ذمہ داری لگائی جماعت کے پہلے ناظم شعبہ تنظیم قمر الدین صاحب کو قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کی ذمہ داری سونپی وہ قائداعظم سے ملے اور واپس آکر مولانا مودودی کو اس ملاقات کی تفصیل سے آگاہ کیا ۔ قمر الدین صاحب چند ماہ بعد جماعت اسلامی سے الگ ہوگئے تھے ایک عرصہ بعد جب وہ اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ اسلا م آباد میں ایک استاد کی حیثیت سے کام کر رہے تھے ، اپنی یاد داشتیں تھنکرز ہفت روزہ میں شائع کرائیں اور قائد اعظم سے اپنی ملاقات کی تفصیل میں لکھاکہ ”مولانا مودودی کے ایما پر گل رعنا دہلی میں قائداعظمؒ سے ملا قائد اعظمؒ 95 منٹ تک بڑی توجہ سے میری بات سنتے رہے پھر فرمایا مولانامودودی کی خدمات کو میں پسند یدگی کی نگاہ سے دیکھتاہوں لیکن برصغیر کے مسلمانوں کے لیے آزاد مسلم ریاست ، ان کی اصلاح کردار سے زیادہ فوری اہمیت کا حامل معاملہ ہے “۔ قائداعظمؒ نے مزید فرمایا ” جماعت اسلامی اور مسلم لیگ میں کوئی اختلاف اور تصادم نہیں ہے جماعت اعلیٰ مقاصد کے لیے کام کر رہی ہے تو مسلم لیگ اس فوری حل طلب مسئلے کی طرف متوجہ ہے جسے اگر حل نہ کیا جاسکا تو خود جماعت کا کام دشوار ہو جائے گا ۔(ہفت روزہ تھنکر 27دسمبر1963ء)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی تحریک احیائے دین کے سالار تھے ۔ مولانا مودودی نے 76 سال عمر پائی مولانا مرحوم نے زندگی کے ابتدائی ماہ وسال میں علمی اور فکری محاذ پر زبردست جہاد کیا پھر 1947 ءسے 1979 ءکے دوسرے دور میں علمی او ر فکری میدان کے علاوہ عملی اور سیاسی میدا ن میں استقامت کے بلند مینار تعمیر کرتے چلے گئے ۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ مولانامودودی کی فکر کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے تاریخ اسلام ، تاریخ تجدید ، تاریخ اجتہاد اور تاریخ علوم اسلامی کے علاوہ اٹھارویں ، انیسویں اور بیسیویں صدی عیسوی کے دوران دنیا میں برپا ہونے والی دیگر تحریکوں کا مطالعہ بھی ضروری ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ بڑی شخصیات روز روز نہیں پیداہوتیں ۔ سید مودودی کی تحریروں میں ہم آہنگی ، ہر تحریر اور تقریر واضح اور ہمہ گیر مقصد لیے ہوتی تھی ۔ تفہیم القرآن ، ترجمہ قرآن ، تجدید و احیائے دین ، فتنہ انکار حدیث کا مقابلہ ، فتنہ قادیان کا مقابلہ ، جہاد اسلامی کے ہر پہلو کو الجہاد فی الاسلام میں اسلام کی تعلیمات کو قرآن و سنت کی روشنی میں من و عن پیش کردیا ۔ سیکولر ازم ، سرمایہ داری اور سود کے فتنہ کے خاتمے اور اشتراکیت کی مذہبی بغاوت و بیزاری کو بے نقاب کیا اور اصلیت پوری دنیا میں واضح کر دی ، خصوصاً اسلامی نظام تعلیم کے ساتھ تصوف پر جامع تنقید اور اس کی اصلاح کے لیے کم لکھا لیکن جو کچھ لکھا اس میں تمام اصولی اور بنیادی باتیں آگئیں ۔ فقہی مسائل پر قرآن و سنت ، صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں کی روشنی میں اعتدال کا رویہ اختیار کیا ۔ مولانا مودودی کی ساری کامیاب زندگی اسی مرکز و محور پر استقامت سے قائم رہی کہ نوجوان ، جدید نسل کو مغربی تہذیب فکر، لادینیت ، سرمایہ دارانہ نظام اور لامذہب فلسفوں کی مرعوبیت سے محفوظ رکھا جائے اسی لیے ان کی فکر میں دین کا جامع تصور دیا گیاہے ۔
مولانا سید مودودی نے عالم اسلام کی تمام اسلامی تحریکوں کو خفیہ جدوجہد کی بجائے آئینی ، جمہوری ، پارلیمانی راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔ نائن الیون (2001 ء)کے بعد کی دنیا کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو دیکھیں کہ مولانا کا مشورہ کس قدر صحیح اور صائب تھا ۔ مغربی دنیا اپنے باطنی حسد کے باوجود آئینی ، جمہوری ،اسلامی تحریکوں کا راستہ بند کرنے کا کوئی اخلاقی جواز ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ اسلامی دعوت کا کام کھلم کھلا اور علی الاعلان ہوناچاہیے اور یہی انبیاءعلیہم السلام کا منہج ہے ۔
٭....٭....٭