اختیارات دیں 3 ہفتے میں لوٹی دولت واپس لے آئوں گا: چیئرمین نیب

لاہور (کامرس رپورٹر) قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے کہا ہے کہ بزنس کمیونٹی کے انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس کے حوالے سے مقدمات ایف بی آر کو بھیجیں گے، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ میں فرق ہے۔ منی لانڈرنگ جرم ہے، سپریم کورٹ نے منی لانڈرنگ کے کئی مقدمات نیب کو بھیجے ہیں۔ نیب مکمل تحقیقات اور انکوائری کے بعد ریفرنس دائر کرتا ہے۔ پانامہ سکینڈل کے حوالے سے دیگر کیسز بھی چل رہے ہیں۔ منزل کا تعین کرلیا ہے، پاکستان کو کرپشن فری بنانا ہے۔ نیب عوام دوست ادارہ ہے۔ بزنس کمیونٹی کے مسائل کے حل کیلئے کمیٹی قائم کی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت لاہور میں بزنس کمیونٹی اور ممتازصنعتکاروں سے خطاب میں کیا۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ نیب اقدامات سے بزنس کمیونٹی پریشان ہے۔ نیب کے کسی اقدام سے تاجر برادری کیلئے مشکلات پیدا نہیں ہوئیں اور نہ ہوں گی۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ نیب تاجر دوست ادارہ ہے، منی لانڈرنگ کے بہت سے کیسز سپریم کورٹ کی جانب سے بھیجے گئے ہیں۔ یہ ٹیکس چوری نہیں ہے، نیب نے اکتوبر 2017ء کے بعد ٹیکس چوری کا کوئی کیس شروع نہیں کیا اور نہ ہی آئندہ شروع کریں گے۔ بینک نادہندگی کے مقدمات میں نیب براہ راست کارروائی نہیں کرتا۔ اقبال زیڈ احمد کے کیس کا ذاتی حیثیت میں جائزہ لے رہا ہوں، ملکی قوانین کے تحت جزا و سزا کا نظام موجود ہے۔ پانامہ کے دیگر مقدمات پر بھی کارروائی جاری ہے۔ بیرون ملک سے بعض مقدمات کا ریکارڈ جلد ملنے پر کارروائی میں تیزی آئی۔ نیب نے اپنے قیام سے لے کر اب تک 342 ارب روپے بدعنوان عناصر سے وصول کر کے قومی خزانہ میں جمع کرائے ہیں ۔ نیب کے مقدمات میں ان افراد کے نام ہیں جنہوں نے کروڑوں روپے کی منی لانڈرنگ کی ہے۔ ان کے پاس 1980ء میں کچھ نہیں تھا لیکن آج وہ دبئی میں پلازوں کے مالک ہیں۔ ان کے پاس یہ رقم کہاں سے آئی۔ میں نے جج کی حیثیت سے ہمیشہ لوگوں کے دکھوں کا مداوا کیا ہے اور اب بھی لوگوں کے دکھوں کے مداوا کی کوشش کر رہا ہوں۔ نجی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے مالکان کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں کیونکہ انہوں نے غریب لوگوں سے ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی لوٹی ہے۔ وائٹ کالر کرائمز کی تفتیش پیچیدہ کام ہے، کیس لاہور سے شروع ہوتا ہے اور املاک بیرون ملک ملتی ہیں۔ بیرون ملک سے معلومات کے حصول کے لئے معاہدہ ہونا ضروری ہے، غریبوں کے خون پسینے کی کمائی کے اربوں روپے لوٹ کر بیرون ملک بھاگ جانے والوں کو نیب کسی صورت نہیں چھوڑے گا چاہے وہ دنیا کے کسی گوشے میں چلے جائیں، ان کا پیچھا کریں گے۔ ان سے لوٹی گئی دولت واپس لائیں گے اور غریبوں تک پہنچائیں گے۔ یہ میرا فرض ہے، موجودہ دور میں کوئی خوف، حمایت، ڈر، سفارش اور اثر و رسوخ نیب افسروں پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ ملک 100 ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ یہ پیسے ملک کی ترقی کیلئے لئے گئے تھے لیکن ان کو عوام پر خرچ نہیں کیا گیا، اس پیسے کو خرچ کرنے والوں کو جوابدہ بنانا میرا فرض ہے، اسے پہلے بھی پورا کر رہا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ اختیارات دے دیں 3 ہفتے میں لوٹی دولت واپس لے آئوں گا۔ ہمارا مقصد کمزور معیشت کو بہتر کرنا اور اربوں روپے باہر لے جانے والوں سے لوٹی گئی رقم واپس لانا ہے۔ ہر پاکستانی یہ عہد کرے کہ وہ بدعنوانی نہیں کرے گا اور اپنا احتساب خود کرے گا تو اس سے حالات بہتری کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب پر یکطرفہ احتساب کا الزام لگایا جاتا ہے، حالانکہ جن کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے وہ 35 سال سے اقتدار میں رہے جبکہ دوسروں کو اقتدار میں آئے ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا ہے۔ ہوائوں کا رخ تبدیل ہوا ہے اور موسم بدلا ہے۔ جن شخصیات کے خلاف کوئی کارروائی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا، وہ اس وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں، جو کرے گا وہ بھرے گا۔ ہر چیز نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں، میڈیا پر جب نیب کے خلاف پروگرام کئے جاتے ہیں تو اس وقت نیب کی کارکردگی کو دیکھنا چاہئے اور نیب کا موقف لینا چاہئے۔ کہا جاتا ہے کہ میں سعودی عرب کی طرز پر بدعنوان عناصر سے ریکوری کروں حالانکہ مجھے گرفتار ملزم کو 24 گھنٹے میں عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے جبکہ سعودی عرب میں بادشاہت ہے۔ کہا جاتا ہے سعودی عرب نے کرپٹ افراد کیخلاف بڑی کارروائی کی۔ سعودی عرب نے بڑے افراد کو 4 ہفتے قید میں رکھا اور سب واپس لیا مجھے تو کسی کو دو روز قید رکھنے کا اختیار نہیں۔ مجھے اختیار دیں پھر دیکھیں گے سعودی عرب سے بڑا اقدام کرتا ہوں۔ نیب طاقتور مافیا کے خلاف سرگرم عمل ہے جس کے باعث ہمارے خلاف الزام تراشی کی جاتی ہے۔ حکومت کے ساتھ وابستگی کا خیال غلط ہے۔ 35 سال بے داغ کیریئر کے بعد اب کوئی داغ اپنے دامن پر نہیں آنے دوں گا۔ یہ بات سو فیصد غلط ہے کہ حکومت نیب کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ ملک کے مقروض ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں، ہسپتال میں ایک بستر پر 4، 4 مریض ہیں، ملک میں بہت سے مافیاز کی داستانیں ہیں، ملک 100 ارب ڈالر کا مقروض ہے، 100 ارب ڈالر کہاں خرچ ہوئے؟۔ چیئرمین نیب نے مزید کہا ہمارے ہاتھوں میں کشکول ہے، دیگر ممالک سے برابری کی بنیاد پر بات نہیں کرسکتے، ایک چھوٹے سے ملک نے بھی شواہد دینے سے انکار کر دیا، واپسی کیلئے رابطہ کیا تو اس ملک کی عدالت نے سٹے دے دیا، 100 روپے کی کرپشن پر 10 روپے واپس کرنا زیادتی ہے۔ مغلوں اور بادشاہوں کا دور گزر چکا ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں ضعیف ماں کا بیٹا ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ دیتا ہے کیونکہ ہسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی ویکسین موجود نہیں۔ سو ارب خرچ ہوا اور بچے رکشوں اور فرش پر جنم لے رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آٹے کے ساتھ گھن بھی پس گیا ہو۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...