مدعا بیان کرنے سے قبل امام علی ؓ کا ایک زریں قول ذہن نشیں کرلیں! آپ سے پوچھا گیا آن اور عزت نفس میں کیا فرق ہے ؟ امیر المومنین ؓ نے جواب فرمایا ,,عزت نفس کا تعلق ایمان سے ہے اور آن کا تعلق شیطان سے ،،…کوئی زمانہ تھا جب ہر کوئی عزت نفس سے واقف ہوا کرتا تھا مگر اب لگتا ہے عزت نفس کو کوئی نہیں جانتا کہ یہ کس چیز کا نام ہے ۔اس لئے اب ہم دوسروں کی عزت نفس کا خیال نہیں رکھتے ۔ کہا جاتا ہے کہ انسانوں کی طرح جانور بھی یہی جذبات رکھتے ہیں اکثر ہم خیال نہیں رکھتے تو پلیز رکھا کریں ۔ ایک صاحب اعلی سرکاری عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے ۔یہاٰںاکثر واک کرتے دکھائی دیتے، بتایا واک میں پہلے بھی کرتا تھا اور اب بھی ۔ پہلے واک میں دکھاوے کیلئے اور اب اچھی صحت کیلئے کرتا ہوں۔ شروع میں ایک مخصوص چھڑی کے ساتھ واک کرتا تھا کہ لوگ مجھے دیکھیں ہش ہش کریں مگر اب چھڑی نہیں کونڈی میرے ساتھ ہے ۔ چھڑی والی واک کی شان ہی کچھ اور ہوتی تھی ۔اس وقت ساتھ سیکورٹی بھی ہوا کرتی تھی کسی کی پرواہ نہ تھی ۔ یہ سمجھتا تھا کہ ہر کوئی میری ہی پرواہ کر ے اور کر بھی رہا ہوتا تھا ۔ بڑے رعب سے اکڑا کڑ کر چلا کرتا تھا جیسے گردن میں سٹیل کا راڈ فٹ ہو مگر اب ریٹائرمنٹ اور عمرے کے کی وجہ سے سریا خود ہی نکل چکا ہے۔ چھڑی چھوڑ کر کونڈی کو پکڑ چکا ہوں ۔اب میں بیگم کے ساتھ آہستہ آہستہ واک کرتا ہوں ۔ اب میں سب کو سلام کرنے میں پہل کرتا ہوں ۔ یہ باتیں آج مجھے اس بزرگ نے بتائیں ، میں اس پارک میں نیا تھا میرے دوست نے بتایا کہ یہ جوڑا بہت پرانا ہے ۔ اس پارک میں روز یہ سوٹ ٹائی اور ہیڈپہن کر واک کرتا ہے ۔ ایک شام واک کرتے ہوئے دیکھا کہ دونوں میاں بیوی بنچ پر بیٹھے ہیں ۔ میں بھی ساتھ والے بنچ میں بیٹھ گیا ۔ بیٹھنے سے پہلے حسب عادت مجھے اونچی آواز میں سلام کیا گیا ۔ جوابا میں نے بھی سلامتی کی دعا دی۔ پوچھا آپ مجھے جانتے نہیں ہیں مگر پھر بھی آپ روز سلام میں پہل کرتے ہیں ۔ ایسا کرنے کی کوئی خاص وجہ ؟ اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میں ایک اعلی سرکاری عہدے کا افسر رہ چکا ہوں ۔ اب تو ریٹائر ہوئے بیس سال ہو چکے ۔ بچوں کا پوچھا تو بتایا ایک بیٹا ہے شادی شدہ فارن میں مقیم ہے۔ اس نے اپنی شادی پر ہمیں نہیں بلایا تھا ۔ہاں فوٹو بھیج دی تھیں ۔وہ خوش ہے اور ہم بھی اس کی خوشی میں راضی ہیں۔اس کی خوشی اسی میں ہے کہ ہم یہاں رہیں وہ وہاں رہے ۔ ہماری پوسٹنگ مختلف شہروں میں ہوتی تھی لہذا وہ ساری عمر ہوسٹلوں میں رہا ۔لہذا وہ بھی جدائی کا عادی ہے اور ہم بھی عادی ہو چکے ہیں ۔ پھر کہا کہ میں جب ریٹائر ہوا تو پرائیویٹ کار ڈرائیو ر کی ضرورت پڑی ۔ لگا تار تین چار ڈرا ئیور بدلے ۔ پھر ایک اچھا ڈرا ئیور بدر نامی مل ہی گیا ۔ اس کی تنخواہ سولہ ہزار رکھی حالانکہ اس وقت ڈرائیور کی تنخواہ آٹھ ہزار ہوتی تھی۔ اس کی فیملی کو رہائش اور کھانا بھی دیتا رہا ۔بدر ڈرائیور نہایت سلجھا ہوا ۔ اس نے کبھی بھی شکایت کا موقع نہ دیا۔ پانچ سال اس نے میری خدمت کی۔ ایک روز رات کا ڈنر کرنے کے بعد جب گھر واپسی کے لئے کار میں بیٹھا تو اسے کار کو ریورس کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس دوران ایک گملا کار کی ٹکر سے ٹوٹ گیا ۔ میں نے اس پر اسے خوب برا بھلا تو کہا ہی تھا ساتھ ہی اسے گالیاں بھی دے ڈالیں ۔ یہ مجھے کہتا رہا سر مجھے گالیاں نہ دیں ، میرے عزت مجروح ہورہی ہے لیکن اس کے منع کرنے پر میں مزید اسے گالیاں دیتا رہا ۔ گھر پہنچ کر اس نے کار کی چابیاں مجھے دیتے ہوا کہا سر آج میرا آ خری دن ہے ۔ گالیوں کی وجہ سے میں یہ جاب چھوڑ رہا ہوں ۔آپ مناسب سمجھیں تو گالیوں کے لئے گھر کتا اور بلی رکھ لیں ۔ یہ سن کر پھر دو تین مزید اسے گالیاں دے ڈالیں ۔کار کی چابیاں چھوڑ کر وہ اپنے کواٹر کی طرف چلا گیا میں اپنے بیڈ روم میں داخل ہوا ۔ سوچا یہ مجھے چھوڑ کر کہا ں جائے گا؟ اسے ہمارے جتنی تنخواہ کون دے گا ؟ لہذا یہ سوچ کر سو گیا۔ دوسرے روز جب ڈرائیور کی ضرورت پڑی تو نوکر سے کہا بدر کو بلا لائوں ۔ بتایا سر وہ تو اپنا سارا سامان اور فیملی لے کر کل رات کو ہی گھرچھوڑ چکا ہے ۔ میں نے حسب عادت اس کی غیر موجودی میں بھی دو تین گالیاں دے ڈالیں۔ سوچا یہ جب دو تین دن بے روز گار رہا تو خود ہی واپس آ جا ُئے گا۔ لیکن ہفتے بعد بھی وہ نہ واپس لوٹا ۔ اب میں اور بیوی اس بدر کی تلاش میں اس کے گائوں پہنچ گئے ۔ یہ گھر پر ہی موجود تھا ۔ بیوی نے سپیشل چائے پیش کی ۔ بتایا کہ میں نے کبھی بھی کسی کو دل سے گالیاں نہیں دیتا ہوں ۔ چلو واپس میں اب تماری تنخواہ بیس ہزار کرتا ہوں ۔ پوچھا سر گالی تو نہیں دوںگے ؟ اگر آپ مجھے گالی نہ دیں تو میں دس ہزار پر نوکری کرنے کو بھی تیار ہوں ۔ لیکن اپنی عزت کی خاطر بھوکا رھ سکتا ہوں مگر میں اپنی عزت نفس کو مجروح نہیں کر سکتا ۔ اس کے یہ الفاظ سن کر گھر چلے آئے کہ اب یہ کل خود ہی کام پر آجائے گا لیکن پھر ایک ہفتہ گزر گیا مگر واپس نہ آیا ۔ ہم دونوں میاں بیوی ایک بار پھر اسے منانے گائوں چلے گئے لیکن اس بار اس سے ملاقات نہ ہوئی پتہ چلا فیملی کے ساتھ کسی دوسرے شہر میں وہ جا چکا ہے ۔میں بدر کو تلاش کرتا رہا کہ اب کی بار یہ نوکری نہ کرے مجھے معاف ہی کر دے ۔ گالیوں کے لئے کتا اور بلی ہم نے رکھ لئے مگر غصہ کرنے پر وہ بھی غر غر کرتے تھے ۔ بدر کی یاد آتی تھیاب گھر میں بدر چلا گیا کتا چلا گیا بلی چلی گئی اور اب ایک نوکر اور نوکرانی کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔ اب ہم نے اس کا ازالہ اس طرح سے کر رہے ہیں کہ سب کو سلام کرنے میں پہل کرتے ہیں ۔ گالیاں دینا کب کی بند ہوچکی ہیں ۔نوکروں کو عزت دیتا ہوں ایسا کرنے سے دن رات اچھے گزر رہے ہیں ۔ بس دعا کریں ایک بار بدر ڈرائیور مل ہی جائے ۔ اس کا دل توڑنے پر اس سے معذرت کر سکیں ۔ مجھے کہا آپ بھی افسر ہیں نوکری پیشہ ہیں ۔ اگر ہو سکے تو میری باتوں پر عمل کر لینا اگر تمہیں فائدہ نہ بھی ہوا تو نقصان بھی نہیں ہو گا ۔بس ان باتوں کو اپنے پلے باندھ لو ۔ ملازم کی عزت کا ضرور خیال رکھا کرو ۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ گالی دینے کی مجھے عادت تھی یہ غلط کہتا ہوں اگر یہ عادت ہوتی تو اپنے سے بڑوں کو بھی میں گالیاں دیتا ۔ مگر کبھی بھی میں نے سروس کے دوران اپنے سے بڑے کو گالی نہیں دی تھی ۔ لہذا یہ عادت نہیں تھی اسے آپ کچھ اور ہی کہیں ۔چھوٹی چھڑی سدا انسان کے ساتھ نہیں رہتی،وقت کے ساتھ چھڑی کا سائز بدلتا رہتا ہے ۔