یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم رِشتوں کو بھی اِصطلاحاََ بیان کرنے لگے ہیںاور اُس کے حقیقی معنوں کو پسِ پُشت ڈال دیتے ہیں۔لفظ ’’ بھائی ‘‘ کو ہم بس ایسے ہی بیان کر دیتے ہیں اور اِس کی اہمیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔مثلاََ بھائی لوگ عموماََ بد معاشوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔یہ بھارتی فلموں سے شروع ہوا تو ہمارے ہاں خاص و عام تک پہنچ گیا۔اِس کے ساتھ ساتھ جب کسی سے ہمدردی جتائی جاتی ہے تو اُسے بھائی کہہ کر تسلی دی جاتی ہے۔ ’’ بھائی ‘‘ کا رِشتہ کسی شخص (مرد یا عورت) سے ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کے ناطے بنتا ہے اور یہ ایک برابری کا رِشتہ ہے۔یا پھر ہمارے پیغمبرِ پاکؐ نے ایک قول کے ذریعے بتایا کہ مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ ’’ ا لمسلم اَخو المسلِم ‘‘۔اِس لئے بھائی کو ہم خواہ اِصطلاحاََ کیسے ہی استعمال کریں لیکن جب… اِسے ’’ ہمارے بھائی ‘‘ کے طور استعمال کرنا ہے تو نبی پاکؐ کے قول کے مطابق صرف کسی مسلمان کے لئے استعمال کرنا چاہیئے جبکہ اقلیت کو قُرآن میں’’ صٰغِرون ‘‘ کہہ کر پُکارا گیا ہے۔( التوبہ: 29)۔یہ ایک اہم آیت ہے اور اِس کی اہمیت کے پیشِ نظر راقِم کی قارئین سے گزارش ہے کہ وہ خود ایک مرتبہ اِس آیت کو قُرآن مجید میں پڑھیں ۔ اِسی طرح حدیث میں اقلیت کو ’’ ذِمّی ‘‘ قرار دیا گیا ہے، یعنی وہ لوگ جو جزیہ دیں اور بدلے میں اِسلامی حکومت اِن کی عزت، جان اور مال کی حفاظت کی ذمّہ دار ہو۔چونکہ صاغرون کا مطلب چھوٹا ہے تو مفہوم یہ ہوا کہ اقلیت، ایک اسلامی ملک میں ’’ چھوٹا ‘‘ بن کر رہے گی ا ور وہ مسلمانوں کی برابری نہیں کرے گی۔یہ برابری اِسلامی حقوق کے لئے ہے مثلاََ زکوٰۃ کا حق صرف مُسلم کا ہے، اقلیت کو دینا جائز نہیں۔جیسا کہ پیچھے لکھا جا چکا کہ عزت، جان و مال کی حفاظت میں وہ مُسلم رعایا کے برابر ہے کہ اِس کے لئے وہ جزیہ ادا کرتے ہیںگویا اِس حفاظت کے لئے حکومت کو ادائیگی کرتے ہیں جبکہ مُسلم رعایا کو یہ سہولت مُفت حاصل ہے۔اِس تمام تفصیل کا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ ہمارے رہنما جب میڈیا پر کوئی بیان جاری کریں تو اِس سے پہلے اپنا ہوم ورک ضرور کریں۔الفاظ کا چُنائو واضح، دو ٹوک اور بر محل ہو۔یقیناََ تمام رہنمائوں کی حمایت عوام کی بڑی اکثریت کرتے ہیں۔وہ اپنی سیاست کے ساتھ کچھ دین کا علم بھی حاصل کریں تو بہتر ہو گا۔خصوصاََ اقلیتوں کے ساتھ ہمدردی جتانے یا مخالف پارٹیوں کے رہنمائوں پر الزام تراشی کرنے سے پہلے نبی پا کؐکے اسوہ کو ضرور سامنے رکھیں۔آپؐ نے تو کبھی دشمنوں کے ساتھ بھی ایسا معاملہ/گفتگو/الزامات کی بوچھاڑ نہیں کی جِس طرح مخالف رہنما ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالتے ہیں ۔ پھر عدالتوں کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں (عوام/رہنما) کی شکایت کا ازالہ کریں اور اس کے لئے اہل اور با صلاحیت منصف منتخب کیئے جاتے ہیں۔یہ سیاسی رہنما بھی ایک دوسرے کے خلاف عدالت میں درخواستیں دائر کرتے رہتے ہیں۔کیا یہ توہینِ عدالت نہیںکہ عدالت میں جاری مقدمات کے متعلق میڈیا میں کھلے عام تبصرے کیئے جاتے ہیں؟ کیا وہ عدالت کے فیصلے کا انتظار نہیں کر سکتے؟ ا ور جب فیصلہ آئے تو احترام نہیں کر سکتے؟ بات کہاں سے کہاں جا نکلی لیکن بر سبیلِ تذکرہ یہ جو ہمارے ر ہنما ’’ عوام کی عدالت ‘‘ کا رونا روتے رہتے ہیں ذرا بتائیے کہ اِس ’’ عدالت ‘‘ کا اہل اور با صلاحیت منصف کون ہے؟؟؟ اِس صف میں نئے پرانے تمام رہنما شامِل ہیں ، وہ بھی ہیں جو ، اب خود اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پہنچ کر ملک و قوم کے لئے کیئے گئے اچھے اور بُرے فیصلوں اور وعدے پورے نہ کرنے کا حساب دے رہے ہیں۔یہاں ہم برسرِ عام عد ل و انصاف کی توہین کر رہے ہیں۔اگر پاکستان کے آئین میں یہ نہیں لکھا تو کم از کم اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ ’’ عدل و انصاف ‘‘ کے قانون کو اپنی سیاست کے لئے استعمال نہ کریں۔ یہ ’’ عوام کی عدالت ‘‘ بالکل ویسی ہی اصطلاح ہے جیسے کسی اقلیت کو ’ ’ ــ ہمارے بھائی ‘‘ کہہ دینا۔ہاں! البتہ 2017 میں اُس وقت کے صدر ِ مملکت جناب ممنون حسین نے بنّوں میں سائنس ٹیکنالوجی یونیورسِٹی کی کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے بر ملا اعتراف کیا تھا : ’’ پچھلے چار سال سے ڈیم بنے نہ اسپتال…عوام پوچھتے ہیں کہ 14 ہزار800 ارب روپے کا قرضہ کہاں گیا؟…کرپشن نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا…ملک کو لوٹنے والوں سے اللہ بدلہ لے گا…‘‘۔یہ اُن کے الفاظ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اکیلی حکومت قصوروار نہیں۔ ہم پہلے بھی اِس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ ترقی کے لئے حکومت اور اپوزیشن کو مِل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔اگر تمام عرصہء حکومت میں اپوزیشن حملہ کرنے کی حالت میں رہتی ہے تو مجبوراََ حکومت اپنی بیشتر توانائی دِفاع میں ضائع کر دیتی ہے۔سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے دورِ حکومت میں خواہ کچھ بھی کیا، کم از کم میاں نواز شریف کی اپوزیشن نے اُن کی ٹانگ نہیں کھینچی۔اِس کے باوجود اُن کے دورِ حکومت میں کوئی قابلِ ذکر ترقیاتی کام نہیں ہوا اور اپوزیشن کو بھی ’’ فرینڈلی اپوزیشن ‘‘ کا لقب مِل گیا۔حکومت اور اپوزیشن کے اعتبار سے اصولاََ یہ ایک ’’ آئیڈیل ‘‘ دورِ حکومت تھا۔راقِم کو یقین ہے کہ اگر عمران خان کو اُن کے مطابق ’’ ایک باری ‘‘ پوری مِل جاتی ہے تو شاید وہ عوام کے حق میں کچھ بہتر کر جائیں۔ مسئلہ ’’ ایک شخص ‘‘ کی حکومت کا نہیں بلکہ پورے نظام کی تبدیلی کا ہے اور وہ کون کرے گا؟ ہماری امید پچھلی پانچ دہائیوں سے ’’ نئی نسل ‘‘ سے وابستہ ہے۔ 70 کی دہائی میں گیت نگار کلیم ؔ عثمانی نے ایک ملی نغمہ لکھا ۔اسے موسیقار نثار بزمی کی دھن میں مہدی حسن کی آواز میں پاکستان ٹیلی وژن کے لئے پروڈیوسر اختر وقار عظیم نے پیش کیا تھا۔ کلیم ؔ عثمانی کہتے ہیں کہ ایک رات خواب میں قائدِ اعظمؒ آئے اور سخت ناراضگی کا اظہار کیا کہ تُم لوگوں نے میرے پاکستان کا کتنا برا حال کر دیا ۔اب اگر کوئی امید ہے تو وہ پاکستان کے نونہالوں سے ہے ، یہ اُن کا وطن ہے وہ ضرور اس کا خیال رکھیں گے۔اس کے بعد وہ بزمی صاحب سے ملے اور یہ خواب سنایا۔ بزمی صاحب نے تائید کی اور کہا کہ واقعی خواب درست ہے! ہماری نسل نے پاکستان کو برباد ہی کیا۔ لہٰذاہمیں امید رکھنی چاہیئے کہ ہماری نئی نسل اس کی پاسبان ہو گی۔اس پر عثمانی صاحب نے یہ نغمہ قائدِ اعظمؒ کی زبانی لکھا (راقم کو یہ واقعہ خود بزمی صاحب نے سنایا تھا)۔70 کی دہائی میں ہماری نئی نسل … بے نظیر، نواز شریف، جاوید ہاشمی وغیرہ پر مشتمل تھی۔عمران خان اور آصف علی زرداری بعد میں سیاست میں آئے لیکن کوئی بھی قائدِ اعظم ؒ کی اس خواہش پر عمل نہ کر سکا کہ پاکستان ایک فلاحی مملکت ہو۔ صد افسوس !! کہ بابائے قوم کے اس خواب کی کوئی بھی لیڈر اور سربراہِ مملکت حسبِ تو قع تعبیر نہ دے سکا۔ اب ہم 50 سال بعد پھر سے وہیں آ کھڑے ہوئے ہیں جہاں بابائے قوم نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کلیم ؔ عثمانی کے خواب میں آ کر کہا تھا کہ تمہاری نسل نے تو میرے ملک کو برباد کر دیا۔ اب ہم پھر سے اپنی اِس نئی نسل سے پر امید ہیں کیوں کہ ؎
یہ وطن تمہارا ہے تُم ہو پاسبان اِس کے…