’کاکولیات

Oct 04, 2021

اسلم لودھی

"کاکولیات"بریگیڈئر(ر) صولت رضا کی سوانح عمری ہے ،اس کتاب میں انہوں نے وہ تمام واقعات نہایت خوبصورتی سے بیان کردیئے ہیں جن سے انہیں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں تربیت کے دوران واسطہ پڑا۔جس روٹ مارچ کا ذکر بریگیڈئر (ر) صولت رضا نے اپنی کتاب "کاکولیات"میں کیا ہے اس کا مختصربیان آپ بھی سن لیں۔ پلاٹون کمانڈر نے نقشے پر ہدایات دیں۔ اردلی نے دو عدد کمبل ،مچھر دانی ،برساتی،گراؤنڈشیٹ ،براؤن بوٹ کا جوڑا، کالے بوٹ ،سوئی سے لے کر دال ماش تک تقریبا چالیس اشیاء سمیت وہ سامان جسے ہم نے روٹ مارچ کے دوران اٹھا نا تھا، پیک کردیا۔سات دنوں کا ناشتہ ،لنچ اور ڈنر ہمارے کندھوں پر سوار تھا۔پہلے دن کا سورج نصف النہار پر پہنچا تو احساس ہوا یہ روٹ مارچ ہے، تماشا نہیں۔کڑاکے کی سردی میں پسینہ ساون بھادوں کی یاد دلا رہا تھا۔ سورج غروب ہوتے ہی کیڈٹس ماضی کی ڈراؤنی کہانیوں کے پس منظرکے ساتھ ایک قبرستان میںجا پہنچے ۔چاروں طرف مہیب اندھیرا اور خاموشی تھی ۔کیڈٹوں کی نقل و حرکت نے ماحول کو مزید پراسرار بنادیاتھا ۔قبروں کے اردگرد کی پختگی واحد ہمارا سہارا تھی۔ابھی ہم قبرستان میں بستر لگا ہی رہے تھے کہ اچانک بادل کی گرج چمک نے ہمیں چوکنا کردیا۔ الٰہی خیر ۔ بارش آگئی تو کہاں جائیں گے۔اس قبرستان میں تو کوئی چھتا ہوا مقبرہ بھی نہیں ،جہاں پناہ لے سکیں ۔ گرج کے ساتھ بجلی چمکی تو یقین ہوگیا کہ بارش ضرور آئیگی ۔دیکھتے ہی دیکھتے بارش شروع ہوگئی ۔دس منٹ کے بعد بارش کے ساتھ پانی بھی آگیا۔کمبلوں کا وزن ڈبل اور ساتھ باندھا ہوا لنچ اور ڈنر قبرستان کے برساتی پانی میں آنکھوں کے سامنے تیر رہے تھے ۔کسی نے افواہ اڑا دی کہ روٹ مارچ کینسل ہوگیا، سب خوش ہوگئے ۔اسی خوشی میں مزید دو گھنٹے بارش برداشت کرلی لیکن یہ افواہ غلط ثابت ہوئی ۔ روٹ مارچ کا چوتھا دن تھا،بھوک اور پیاس نے بہت پریشان کیا ۔ اگلا پڑاؤ بھی قبرستان ہی میں تھا ۔ ایک خالی جگہ پر دستر خوان بچھ گیا ۔مکئی کی روٹی کے ساتھ سرسوں کا ایسا مزیدار ساگ تھا جو ہم نے پہلے کبھی نہ کھایا تھا،سب نے پیٹ بھر کے کھایا۔ قبرستان میں بچھے ہوئے بستروں میں سو رہے تھے کہ اچانک پیٹ میں بغاوت کے آثا ر محسوس ہوئے۔چاروں طرف گھپ اندھیرا ، ہو کا عالم تھا۔یہ پریشانی ساگ اور نان کے کثیر استعمال کا نتیجہ تھی۔یکے بعد دیگرے سب نے قرب و جوار کی راہ لی ۔بے لگام پیٹ پر ہاتھ رکھے،رائفل کندھے سے لگائے سب اندھیرے میں ادھر ادھر بھاگ رہے تھے ابھی دس قدم ہی چلے ہونگے کہ یوں محسوس ہوا زمین سرک گئی اور ہم ایک بڑے برساتی نالے میں جا گرے۔نالے کا قد ہم سے بڑا تھا، کوشش کے باوجود پانی سر کے اوپر ہی رہا۔نتھنوں میں گھسنے والے پانی نے واضح کردیا کہ ڈوبنے کے خواب کی تعبیر نزدیک آ پہنچی ہے۔ڈوب کر مرنے کا تصور روحانی اور جسمانی دونوں لحاظ سے اعصاب شکن تھا ، ذہن میں فورا خیال آیا کہ یار دوست کیا کہیں گے کہ ڈوب کے مرگیا۔ہم ہاتھ پاؤں برابر چلا رہے تھے، شاید اسی وجہ سے کو ئی شے ہاتھ میں آگئی، پہلے سانپ کا گمان ہوا ،بعد میں پتہ چلا وہ کسی درخت کی جڑ ہے۔ جڑکو پکڑکر ہم ایک ہی جست میں نالے سے باہر آگئے۔ اندھیرے کی وجہ سے ہم اپنی حالت دیکھ تو نہ سکے لیکن محسوس ہی کرسکے۔ایک اور واقعے کا ذکر یہاں ضروری سمجھتاہوں۔مارننگ پریڈکو فال ان ہوئے چند منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک آوارہ مچھر ہوا خوری کرتا ہوا ادھرآنکلااورمیری ناک پر بیٹھ گیا۔ ڈرل انسٹرکٹراپنی حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ افروز تھے لیکن تمام تر کوشش کے باوجود مچھر اڑنے کا نام نہیں لے رہاتھا، میں نے پیٹ بھرکر سانس لی اپنے ہونٹوں کو باریک سوراخ کا شکل دی اورمچھر پر فکس کرکے پوری قوت سے زور لگا تو راکٹ کی مانند ہوا منہ سے نکلی اور پریڈ کی صفوں میں سیٹی کی گونج پھیل گئی۔اس گناہ کبیرہ کی آواز جب انسٹرکٹرکے کانوں سے ٹکرائی تو اس کا ردعمل ایسا ہولناک تھاکہ ہر کیڈٹ کے کان میں سیٹیاں بجنے لگیں۔آپ نے سیٹی بجائی؟ سٹاف نے پوچھا،دراصل مچھرکو اڑایا تھامیں نے کہا۔پریڈ میں مچھر کی طرف دھیان کیوں دیا؟ سٹاف ۔تنگ کررہا تھا مجبوری تھی۔میں نے کہا۔لنچ بریک میں سب مبارکیں دے رہے تھے کہ تمہارا نام نوٹ کرلیا گیا ہے اب نائٹ کلب میں خوب گزرے گی۔نائٹ کلب میں کیڈٹ پر کیا گزری ،اس کیلئے آپ کو کتاب "کاکولیات" پڑھنی پڑے گی کی قیمت صر ف ایک سو روپے ہے۔

مزیدخبریں