تپش کی لہر خطرناک موسمی کیفیت اور قدرتی آفت کا نام ہے کہ جس میں کسی خاص جگہ پر اور سال کے کسی خاص وقت میں متوقع موسمی حالات کے مقابلے میں درجہ حرارت اور اسکے ساتھ نمی میں بھی نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے۔ دنیا میں عمومی طور پر ایک تو گرم دنوں اورراتوں کا درجہ حرارت زیادہ ہورہا ہے اوردوسرا ان کے وقوع پذیر ہونے کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ سرد دنوں میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ایک عام تعریف کے تحت کسی خاص جگہ پر تپش کی لہر ہو گی جب وہاں کم از کم مسلسل تین دن تک کا درجہ حرارت روزانہ کیااوسط انتہائی درجہ حرارت تک جا پہنچے یا اس علاقے کے لئے متعین کی گئی تپش کی لہر کے درجہ حرارت کی حد کو پار کرے۔تپش کی لہروں کے وقوع پذیر ہونے کی بڑی وجہ کسی جگہ پر کچھ دنوںسے لے کر کچھ ہفتوں تک ہوا کے دباؤ میں اضافہ ہونا ہے جس سے موسم میں جلد تبدیلی ہونا ممکن نہیں ہوتی۔
موسمیاتی تبدیلی جہاں ناپائیدار ترقی اور سماجی تفریق اور وسائل کی تقسیم میں ناانصافی میں اضافہ کا سبب ہوسکتی ہے اور اس کی وجہ سے املاک ، جانوروں اور فصلوں کا نقصان، بے ہنگم نقل مکانی، بھوک و افلاس اور بیماریوں سے اموات میں اضافہ ہورہا ہے وہاں یہ تپش کی لہروں میں اضافہ کا سبب بھی بن رہی ہے جس کی بنیادی وجہ فضائیکاربن ڈائی آکسائیڈاور میتھین گیسز کابڑھناہے۔یہ گیسز سورج کی شعاعوں کو جذب کر کے زمینی درجہ حرارت میں اضافہ کا باعث ہیں جسکا اثر تپش کی لہروں کے زیادہ وقوع پذیر ہونے پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ایک تحقیق کے مطابقموسمیاتی تبدیلی سے دنیا کے کچھ حصوں میںتپش کی لہروںمیں تیس فیصد تک اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔تپش کی لہریں بہت سے نقصانات کا باعث ہے جن میں انسانی اموات ، جنگلات کی آگ، خشک سالی، "اربن ہیٹ آئی لینڈ" اور ماحولی نظام اور پا ئیدار ترقی کو شدید خطراتشامل ہیں۔جب تپش کی شدت انسانی جسم میں گرمی بڑھاتی ہیتو جسم پسینے کی شکل میں پانی خارج کر کے اپنے آپ کو ٹھنڈا کرتا ہے لیکن اگر ہوا میں نمی کا تناسب بھی زیادہ ہو تو پسینہ آنے کا عمل کم ہو جاتا ہے جس سے جسم کے ٹھنڈا ہونے کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور ہیٹ سٹروک ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔رات کے وقت بھی زیادہ درجہ حرارت اور نمی کا ہونا صحت کے لئے نقصان کا باعث بنتا ہے خصوصا ً کم آمدنی کے گھرانے سے تعلق رکھنے والے بچوں اور بزرگوں کے لئے کہ جن کے پاس ٹھنڈک کا کوئیمتبادل نظام نہیں ہوتا ۔ اس کے ساتھ ساتھ انتہائی گرمی دل ،گردوں اور سانس کی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ باہر کام کرنے والے افراد خصوصا ًکھیتوں میں کام کرنے والوں کی ذہنی و جسمانی کارکردگی پر منفی اثرات پڑتے ہیں مثلا ایک تحقیق کے مطابق تینتیس سینٹی گریڈ درجہ حرارت سے اوپر ان کی کارکردگی پچاس فیصد کم ہو جاتی ہے۔تپش کی لہرکے دوران فضائی آلودگی میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گرم اور روشن دن میں سطح زمین کے قریب اوزون گیس زیادہ بنتی ہے اور اسکے ساتھ ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے ائیرکنڈیشنرز اور بجلی کا زیادہ استعمال دیگر گیسز اورباریک ذرات کے اخراج کا سبب بنتا ہے۔سطح زمین کے قریب اوزون ، دیگر گیسز اور ہوا میں معلق باریک ذرات انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر ہیں۔تپش کی لہریں زراعت اور جانوروں پر بھی انتہائی برے اثرات ڈالتی ہیں۔ کچھ پودوں کو رات کے وقت کم درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے جس کے نہ ملنے سے ان کی صحت اور اناج کے اوپر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ مویشیوں پرتپش کی لہروں کے اثرات میں ان کے دودھ دینے اور بڑھوتیمیں کمی اور شرح پیدائش میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔پاکستان میں تپش کی لہروں کی شدت میں اضافہ اور ان کا بڑھتا ہوا زمینی پھیلاؤ دیکھا جا رہا ہے۔صرف جون 2015 میں کراچی میں تپش کی لہر سے بارہ سو سے زیادہ اموات ہوئیں اور پچاس ہزار سے زیادہ لوگ گرمی سے متعلقہ بیماریوں میں مبتلا ہوئے۔ایک تحقیق کے مطابق ملکی اور صوبوں کی سطح پر تپش کی لہروں میں اضافہ ہو رہا ہے جن میں پنجاب، سندھ اور بلوچستان شامل ہیں اور مستقبل میں بلوچستان میں اس کی وجہ سے قحط سالی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔تپش کی ان لہروں سے گلیشیئرز کے پگھلاؤ میں تیزی آ رہی ہے کہ جس سے سیلاب کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں اور اس سے پانی کے ذخائر میں بھی کمی متوقع ہے۔ بڑے شہروں مثلا کراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان، گوجرانوالہ، سرگودھا اور سیالکوٹ میں مستقبل میں تپش کی ان لہروں میں اضافہ کا امکان ہے۔اس سلسلے میں حکومتی سطح پر ہونے والے اقدامات کو تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خطے میں جیواکنامکمفادات اور پائیدار ترقی کو تحفظ دیا جا سکے۔ ان اقدامات کے دواہم پہلو ہیں۔پہلا یہ کہ موسمیاتی تبدیلی، جو کہ ان لہروں میں اضافہ کا سبب ہے، کے حوالے سے کام کیا جائے ۔ ان اقدامات میں ماحولیات کے قوانین پر عمل کروانا، صنعتوں سے زہریلی گیسز کے اخراج کو کم کرنا، جنگلات کے کٹاؤ کو روکنا اور نئے جنگلات لگانا، شہری علاقوں میں کوڑا کرکٹ کا بہتر نظام بنانا، فضلہ جات ٹھکانے لگانی والی جگہوں کا مناسب انتخاب کرنا، گرین انرجی کی پیداوار کو بڑھانے کیلئے اقدامات کرنا، نئے شہروں کو بسانا اور اس حوالے سے عوامی سطح پر احساس ذمہ داری جگانا اور تربیتی پروگرامز منعقد کرنا وغیرہ شامل ہیں۔اس حوالے سے کچھ حکومتی کاموں کا تذکرہ کرنا اہم ہوگا -(جاری ہے)