ایوانِ صدر یا وزیراعظم کسی بھی ملک کے سب سے زیادہ محفوظ ہوتے ہیں جن ممالک میں بادشاہت ہے وہاں شاہی محلات کی سیکورٹی فول پروف ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں جس طرح سے وزیراعظم ہائوس کی سیکورٹی بریچ ہوئی ہے وہ پاکستان کی سلامتی، سالمیت اور ساکھ کے لیے تباہ کن ہے۔ وزیراعظم ہائوس میں ہونے والی گفتگو جس طرح سامنے آئی ہے۔ اس سے لگتا ہے وہ جو بھی گفتگو ہوتی ہے وہ سرِبازار اور سرِعام ہو رہی ہے۔ ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہائوس کا مکین جو بھی ہو اس سے قطع نظر وہاں میں ہونے والی گفتگو کا ایک بھی لفظ کا باہر آنا بڑے بڑے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ان آڈیولیکس نے پاکستان میں ایک ہلچل مچا دی ہے۔عالمی سطح پر لیکس کا جائزہ لیا جائے وکی لیکس سب سے بڑی تھی۔ اس میں بھی کئی حوالوں سے پاکستان کا نام آیا تھا۔ یہ کہیں اور سے لیکس ہوئی اور پھر دو تین سال قبل پاناما لیکس سامنے آئیں ۔ جس کے پاکستان پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اس نے پاکستان میں زلزلہ برپا کر دیا تھا جس کے آفٹر شاکس اب تک محسوس ہو رہے ہیں۔ کبھی تو یہ شاکس اپنی شدت میں بھونچال والی کیفیت لیے ہوتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ بھی آفٹرشاکس میں شامل ہے۔ میاں نوازشریف کی نااہلیت، ان کو قید اور جرمانے کی سزا بھی پاناما لیکس ہی کا نتیجہ تھا اور کل مریم نواز کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے باعزت بری کر دیا ہے۔ ان کو بھی پاناما کیس ہی میں سزا ہوئی تھی۔ اس لیکس کے اثرات پاکستان کی سیاست پر کب تک مرتب ہوں گے؟ وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
جب دنیا کی چند مشہور لیکس کی بات ہوتی ہے تو اس میں امریکہ میں ہونے والے واقع واٹرگیٹ کو زیادہ شہرت ملی۔جون 1972 میں امریکی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی سکینڈل منظرعام پر آیا جو دو سال بعد ریپبلکن صدر رچرڈ نکسن کے عہدے سے مستعفی ہونے کا سبب بنا۔ 16 اور 17 جون کی درمیانی شب پانچ افراد واٹر گیٹ ہوٹل میں واقع ڈیموکریٹک پارٹی کے دفتر میں داخل ہوئے جنہیں موقع پر ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ان افراد کو ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ رچرڈ نکسن کے مخالفین سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے تصاویر لیں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے دفتر میں مائیکرو فون نصب کریں۔ دیگر شہرت پانے والی ان لیکس میں پینٹاگان پیپرز ، پلیم گیٹ، کیبل گیٹ، ٹریٹی آف گوادل، پورہیڈ لگو سکینڈل، میک کرسٹل وار پلان، دی اپاچی ہیلی کاپٹر شوٹنگ، سارہ پلنز ای میلز ،لِل وائن دا لیک شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک میں ہلا دینے والی کہانی ہے۔
دنیا بھر میں مسلم ممالک کی تعداد 60سے متجاوز ہے۔ آبادی پونے دو ارب یعنی ایک سو 70کروڑ سے زیادہ ہے۔ ان ممالک میں سے پاکستان واحد ایٹمی قوت ہے۔ پوری دنیا کی بات کریں تو ساتواں ملک جس کے پاس ایٹم بم کی صورت میں جدید ترین اسلحہ ہے۔ اس طاقتور ملک کے صدر، وزیراعظم ہائوس اور جی ایچ کیو جیسے سکیور ترین اداروں پر حملہ ہونایاآڈیو ویڈیو کا ریکارڈ ہو کر سامنے آنا شرمناک ہے اور پاکستان کے صوبائی اور وفاقی اداروں کے دفاتر میںموجود ریکارڈ کو آگ لگ جانا،وزیراعظم ہائوس سے سائفر کا چوری ہو جانا ہمیں یہ بات سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام اور ایٹم بم تو خوانخواستہ کہیں غیر محفوظ ہاتھوں میں تو نہیں ہے؟ ریکارڈنگ کرنے والے جتنا غیر قانونی کام کرتے ہیں اتنا ہی اسے لیک کرنے والے کر رہے ہیں۔ دونوں کا جرم برابر اور ناقابل معافی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف سے دیگر لوگوں وزرا کی گفتگو، وزرا کی وزراء سے گفتگو، عمران خان کی پرنسپل سیکرٹری سے بات چیت جس نے بھی ریکارڈ کی اور اسے لیک کیا ان کو قانون کے دائرے میں لانا ضروری ہے۔ جو طاقتور لوگ ایسی کارروائیاں ڈال کر کسی پارٹی یا شخصیت کو نیچا دکھانا کسی کو اوپر اٹھانا چاہتے ہیں وہی سازشی اور پاکستان کے دشمن ہیں ان کو تحفظ دینے والے بھی اتنے ہی بڑے مجرم ہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف نے اس خدشے کا بجا اظہار کیا ہے کہ جس طرح آڈیو لیک ہوئیں ہیں دنیا کے کسی بھی ملک کا سربراہ پاکستان آنے اور وزیراعظم ہائوس میں گفتگو کرنے کے لیے کیسے آمادہ ہوگا۔جس گفتگو کے لیک ہونے کا امکان ہوگا۔ بھارت ، امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھوں پاکستان کا ایٹمی پروگرام کب تک محفوظ ہے؟ ان آڈیو لیکس کے بعد یہ سوال شدومد سے سامنے آتا ہے۔ آئندہ ایسی لیکس سے صرف اسی طرح بچا جا سکتا ہے کہ ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرے۔ ادارے ایک دوسرے کے معاملات کرتے رہیں تو ایسے سانحات جنم لینے سے نجات ممکن نہیں؟
قارئین!اس سے پہلے کہ عوامی غیض و غضب اور صبرکا پیمانہ لبریز ہو جائے پاکستان کی سلامتی ،تحفظ اور انصاف کے اداروں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ پاکستان نہ تو شام ، عراق ،لیبیا ،افغانستان جیسا عسکری لحاظ سے کمزور ملک ہے اور نہ ہی سری لنکا جیسا کم آبادی والا کمزور ملک ہے۔ جب کہ پاکستان دنیا کی ساتویں نیوکلیئر طاقت ہے جس کے پاس بارہ لاکھ سے زائد مکمل تربیت یافتہ فوج اور سب سے بڑی بات جذبۂ ایمان موجود ہے مگر جب عوام کے ساتھ مسلسل ’’کھلواڑ ‘‘کیا جائے گا تو پھر اس کے ردعمل میں عوامی غیض و غضب کا پھوٹ پڑنا ایک حقیقت ہو گی،جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔کوئی بھی سیاسی پارٹی ہو ،کوئی بھی قائد ہو ہمیں سب سے پہلے ملکی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ اور پاکستان کو عوامی حصار میں لے کر مستقبل میں ہونے والی متوقع اور غیر متوقع سیاسی اور حفاظتی لیکس سے بچنا ہوگا۔