معافی‘ درگزر اور ہمارا مائنڈ سیٹ

صبح پانچ بجے کا وقت تھا۔ وہ اٹھے جوگرز پہنے اور ٹریک پر بھگانا شروع کر دیا۔ کچھ دور جانے کے بعد احساس ہوا کہ چند لوگ ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ سیکیورٹی والوں نے ان تک پہنچتے ہی ان سے بحث شروع کر دی کہ سر آپ اکیلے جاگنگ پر نہیں جا سکتے آپ کو خطرہ ہو سکتا ہے۔خطرہ کیسا خطرہ۔ وہ بولے یہ میرا ملک ہے لوگ میرے ہیں ان سے کیسا خطرہ۔ مگر سیکیورٹی والے انہیں تنہا چھوڑنے پر رضامند نہ ہوئے تو انہوں  نے صرف دو گارڈز کو ساتھ چلنے کا حکم دیا باقی کو واپس کر دیا۔ 
اب اسی شخصیت کا دوسرا واقع بھی سن لیجئے۔ یہ ایک ہوٹل میں چند معزز مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانے میں مشغول تھے کہ ان کی نظر دور بیٹھے تنہا شخص پر پڑی۔ وہ شخص بھی ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ نظر ملتے ہی گڑبڑا گیا۔ یہ اپنی نشست سے اٹھے ،اس کے پاس گئے اور اسے اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی۔ اس شخص نے کچھ ہڑبڑاتے ہوئے دعوت قبول کی اور ان کی میز پر آ گیا ۔ وہ شخص انتہائی Uncomforable تھا۔ کھانے کے دوران وہ جیسے ہی پانی کی طرف ہاتھ بڑھاتا ۔ یہ خود گلاس اس کے ہاتھ میں تھما دیتے۔ وہ ہڑبڑا جاتا۔ کھانے کے اختتام پر انہوں نے اس شخص کو نہایت عزت سے گلے لگاتے ہوئے رخصت کیا۔ ساتھ کھڑے مہمان سے مسکراتے ہوئے جملہ کسا کہ شاید ا س نے آپ کو اب تک صدر تسلیم نہیں کیا۔ آپ کے سلوک اور مہمان نوازی نے اس بیچارے کو مضطرب کر دیا۔ وہ بولے یہ شخص جیل میں میرا نگران تھا۔ میں جب بھی اس سے پانی مانگتا یہ مجھے گندی گالیاں دیتا اور مجھ پر تھوک دیتا تھا۔ میں نے اسے معاف کر کے، اس کے ساتھ دوستانہ برتائو کر کے اس کی روح چھین لی ہے۔ یہ شخص تھے :
نیلسن منڈیلا۔ 
ان دونوں واقعات کو آپ پاکستانی سیاست پرمنطبق کر کے دیکھئے اور سوچئے کیا نتیجہ نکلتا ہے سوچ نظر کو کیا دکھاتی ہے۔ ہمیں آزاد ہوئے 75 سال ہوگئے۔ آج تک ہمیں ایک نیلسن جیسا جذبۂ معافی رکھنے والا ،عام لوگوں میں عام انسانوں کی طرح زندگی بسر کرنے والا عوام سے دلی محبت کرنے والا، خود کو سپیشل سمجھ کر سپیشل Treatment سے انکار کرنے والا اور پڑھا لکھا ذہن رکھنے والا حکمران نہ مل سکا۔ ہم اس ملک کا Enalysis کریں تو یہاں وہ لوگ حکمران رہے جو اندرون لاہور کے ان پڑھ کونسلر بنے پھر صدر بنے اور اپنے مخالف کھڑے ہونے والے کو چاہے مرد ہو عورت انتقام کا نشانہ بناتے رہے۔ اپنے جیسا ذہن رکھنے والوں کی ہی ٹیم بنائی۔ جیسی Team ویسی ہی Policy ۔ ویسا ہی نظام۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ 
پھر اس کرسی پر براجمان ہوئے Victory Mind set رکھنے والے اور International Exposure والے لوگ۔ وہ بھی انتقامی سیاست میں ملوث رہے اور ا یک اچھی Team نہ بنا سکے۔ Policy نہ اچھا  نظام diliver کر پائے۔ نیت سب کی صاف ہے مخلص بھی سب ہیں مگر ملک پھر بھی نہیں چل رہا۔ 
پتہ نہیں اس کرسی میں ایسی کیا بات ہے کہ اسے سنبھالنے والا خود زیادہ عرصہ سنبھل نہیں پاتا۔ انتقام، طاقت کی ہوا سر پر ایسی چڑھتی ہے کہ عام آدمی اور عوام دونوں ہی بھول جاتے ہیں۔ 
آپ خود سوچئے جب ایک شخص کا فوکس Focus Health, Education, Policy Making, Team Making اور Employment کے ایشوز سے ہٹ کر صرف مانگنے پر، اپنے آپ کو بچانے پر، اعلیٰ اداروں اور مخالفین سے انتقام لینے کی جانب ہو جائے تو ملک کی حالت کیسے بدلے گی۔ چاہے سالوں تبدیلی کی ڈفلی بجاتے رہو اور ان سب میں ہم کون ہیں۔ ہم اندھے تماشائی ہیں۔ ہم پرانے لوگوں کے بھی اندھے پیروکار تھے ۔ کبھی شیر کو آتا دیکھ کر خوشی سے پاگل ہو گئے کبھی روٹی کپڑا مکان کے پیچھے لگ گئے۔ کسی نے آ کر کان میں پھونک دیا چور پکڑو تو آنکھوں پر کھوپے چڑھائے اور سُن دماغوں سے اس کے پیچھے چل پڑے۔
 کبھی سوچا کہ کس نے ہمیں کیا diliver کیا؟ کس نے تعلیم پر کام کیا ۔ کس نے عوام کی صحت کو ترجیح بنایا۔ کس نے کس کو معافی دے کر مثال قائم کی۔ کسی نے سیلابوں، روزگار اور Economic Indepency کے لیے پالیسی بنائی۔ کس نے انصاف کا نظام درست کیا اور کس نے ایک بہتر نظام دیا۔ ہمیں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے ہم بے وقوفوں اور نالائقوں کی قوم ہیں۔ گدھوں کو کوئی بھی ہانک کر کہیں بھی لے جائے گدھوں کو فرق نہیں پڑتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہمیں کرنا کیا چاہئے؟ تو جناب سب سے پہلے تو ہمیں اپنی آنکھوں سے ذرا یہ کالی پٹی اتارنی چاہئے اور دور کھڑے رہ کر انتہائی غیر جانبداری سے تمام حکمرانوں کا جائزہ لینا چاہیے کہ ان کی باتیں ان کے اعمال سے مطابقت رکھتی ہیں یا نہیں۔ اور ہمارے لیے کس نے کتنی Pain لی۔ اپنی محبت اور جذباتی وابستگی میرٹ سے منسوب کرنی چاہیے۔ جو عوام کو تعلیم روزگار اور نظام دے گا ۔
وہ آگے آئے گا۔ اور آخری مگر اہم۔ ہمیں دنیا کے لیڈروں اور حکمرانوں کا ان کی شخصیتوں کا اور مائنڈ سیٹ کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ہمیں پتہ تو چل سکے کہ لیڈر، حاکم ہوتا کون ہے۔ کیا کرتا ہے اور مرنے کے بعد بھی زندہ کیوں رہتا ہے۔ ورنہ یہی چار چہرے ہونگے گروپ میں بٹے عوام ہوں گے اور ہم پھر سے وقت اور دنیا سے کہیں بہت پیچھے ہوں گے۔ 

ای پیپر دی نیشن