قبل ازوقت انتخابات: امکانات اور مضمرات 

پرویز اعوان صاحب ہمارے دوست اور جمخانہ کلب کے ممبر ہیں ۔ محکمہ پولیس میں DiG رہے۔ اُن کا اصرار ہے کہ آخری دنوں میں وہ ایڈیشنل آئی جی بن گئے تھے۔ کلب میں کسی ممبر کو جرأت نہیں ہوتی کہ ’’بزرگوں‘‘ کی بات کو جھٹلا سکے۔ محکمہ پولیس میں کوئی سپاہی بھی ہو تو اسے بزرگ ہی گردانا جاتا ہے۔ لوگوں کی طرح محکموں کا بھی مزاج ہوتا ہے۔ سول سروس کو اگر سینگوں والی سروس کیا جاتا تھا تو ان کا محکمہ بھی ہر حکومت کا بازوئے شمشیرِ زن رہا ہے۔ حکمران، مخالفین کے کس بل انہی سے نکلواتے ہیں۔ 9/4 کے لِتّر اور ’’ڈنڈا ڈولی‘‘ کا تصور ہی سوہانِ روح ہوتا ہے۔ اعوان صاحب نے کبھی بھی اپنے نام کے ساتھ پنشن یافتہ کا لاحقہ نہیں لگایا۔
 اس سلسلے میں جو دلیل پیش کرتے ہیں اس میں بڑا ’’وزن‘‘ ہے۔ کہنے لگے۔ پنشن یافتہ بڑا حواس باختہ لفظ ہے جس سے منشیانہ بُو آتی ہے۔ کسی سکول مدرس یا ڈاک بابو کے لیے تو موزوں ہو سکتا ہے لیکن ایسی سروس کے شایان شان نہیں جسے سو برس تک برطانوی سامراج کو مضبوط اور مستحکم کرنے کا شرف حاصل رہا ہو۔ ویسے بھی مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے!
جب بھی ملک کے مسائل اور مصائب کا ذکر چھڑتا تو وہ زیرلب مسکراہٹ کے ساتھ ایک جملہ ضرور کہتےIt is a strang country ۔وہ امریکہ پدھار گئے ہیں لیکن آج جب ہم ملکی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے ٹکرائو اور لیڈران کی برہنہ گفتاری اور کہہ مکرنیوں کو سنتے ہیں تو اعوان صاحب کا سکہ بند جملہ خود بخودوِردِ زباں ہو جاتا ہے۔ It is a strange country حیران کُن بات یہ ہے کہ جب عمران خان سب طبل و علم کے مالک و مختار تھے تو انہیں آئین و قانون کی ہر شق ازبر تھی۔ اپوزیشن انہیںسیلیکٹڈ وزیر اعظم کہتی، ایسا شخص جو دریوزہِ گر آتشِ بیگانہ ہے، آیا نہیں لایا گیا ہے یا جس کے پاس سادہ اکثریت بھی نہیں ہے۔ بھان متی کا کنبہ جوڑا گیا ہے۔ غیر تو غیر اپنے بھی برگشتہ ہیں! جہانگیر ترین گروپ ایک کانٹے کی طرح اُن کے حلق میں اٹکا ہوا ہے۔ 
خان صاحب ان ہرزہ سرائیوں کا سکہ بند جوابدیتے ’’آئین پڑھ لو! اگر انگریزی سمجھ میں نہیں آتی تو میں اُردو میں ترجمہ کر کے بھجوا دیتا ہوں! میں آخری دن، آخری گھنٹے تک حکومت کرونگا!۔‘‘ آخری منٹ کی پخ ہمارے ہردلعزیز فواد چوہدری صاحب لگا دیتے۔ خان صاحب خوش قسمت ہیں کہ ایسی نابغہِ روز گار ہستیوں نے اُنہیں گھیرا ہوا ہے! وہ صرف اس پر اکتفا نہ کرتے بلکہ اگلے الیکشن تک قائم و دائم رہنے کا عندیہ بھی دیتے۔ اِسی زعم میں انہوں نے ’’راوی رِور‘‘ منصوبہ شروع کیا۔ وسیم اکرم پلس کو اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا ٹاسک دیا۔ 
قیاس کُن زگلستانِ من بہار مرا
ہم نے اپنے کالموں میں اس وقت بھی عرض کی تھی کہ یہ بزدار کے بس کا روگ نہیں ہے۔ اسے مکمل کرنے کے لیے کم از کم بیس سال چاہئیں، جہاں ہنستے بستے شہر ویران ہو رہے ہوں وہاں نئی بستیاں کیسے اور کیونکر آباد ہونگی؟ اگلی حکومت آتے ہی اسے طاقِ نسیاں میں ڈال دے گی۔ نتیجتاً لاکھوں ایکڑ Acquired اراضی پر نہ تو تعمیر ہو سکے گی اور نہ زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہو گی اور اب نیرنگیِ سیاست دوراں تو دیکھئے اب خان صاحب فوری الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسے امپورٹڈ حکومت کہتے ہیں اور وہ جو ماضی میں ایسا مطالبہ کرتے تھکتے نہ تھے، اب یکسر انکارہیں! 
کہتے ہیں کہ جب شیر کے منہ کوانسانی خون لگ جائے تو پھر اسے دیگر جانوروں کا گوشت بد ذائقہ اور بدمزہ لگتا ہے۔ وطنِ عزیز میں جو شخص وزارتِ عظمیٰ کا ’’ہوٹا‘‘ لے لے پھر وہ باہر چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔ اسے خواب میں بھی اُڑن کھٹولے۔ بلٹ پروف گاڑیاں ’ہیلی کاپٹر نظر آتے ہیں۔
 اس کے علاوہ بھی کچھ ایسے Fringe benefits ہیں جن کا ذکر کرنا مناسب نہ ہو گا…ہم نے کئی برطانوی وزرائے اعظم کو معزولی کے بعد 10 ڈائوننگ اسٹریٹ سے نکلتے دیکھتا ہے۔ ایک ہاتھ میں سوٹ کیس، دوسرے سے بچوں کی اُنگلی تھامے وہ بڑے وقار سے دو سو گز دور کھڑی کھٹارہ سی گاڑی میں بیٹھ کر گوشہ گمنامی میں چلے جاتے ہیں۔ کوئی شور و غوغہ، حال دہائی نہیں ہوتی۔ کسی اضطراری کیفیت کا اظہار نہیں کیا جاتا ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ ؟ میرے خلاف سازش ہوئی ہے!‘‘ کا نوحہ بھی نہیں پڑھا جاتا۔ (جاری) 

ای پیپر دی نیشن