بعداز خدا بزرگ توئی، قصہ مختصر

ربیع الاول ہجری کیلنڈر کا تیسرا مہینہ ہے ۔ربیع عربی میں بہار کو کہتے ہیں۔ 1496 ء برس قبل یہ مہینہ ایسی خزاں ناآشنا بہار کی آمد کا پیغام لے کر آیا جس کے قدموں کی آہٹ نے تخلیق کے ان گنت گلشن آباد،ایزاد اور ایجاد کئے۔ اس مبارک مہینے میں وہ عظیم ہستی اس کائناتِ ہست و بُود میں رونق افروز ہوئی جس کے وجود نے خالق کے ہونٹوں سے ادا ہونے والے لفظ ’’کُن‘‘ کی ہمہ جہات معنویت اجاگر کی۔ یہ مہینہ آئین سازِ مجلسِ عالم، انبیاء و رسل کے قائد اعظم، رسولِ محتشم نبی اکرمﷺ کی ولادتِ باسعادت کا مہینہ ہے۔ ایک حدیثِ قدسی کا مفہوم ہے کہ ’’اے محبوب! اگر آپ کے وجود کوہستی کی خلعت پہنانا میرا مقصود نہ ہوتا تو بزم انفس و آفاق کا دامن زندگی اور تخلیق کے نگینوں سے محروم رہتا‘‘۔بابائے صحافت مولانا ظفر علی خانؒ نے اسی حدیث قدسی کا کیا خوبصورت منظوم ترجمہ کیا ہے… گر ارض و سما کی محفل میں لولاک لما کا شور نہ ہو، یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں ، یہ نور نہ ہو سیاروں میں … سچ کہا تھا شہرِ لاہور کے گریباں چاک درویش اورگلیم پوش فقیر ساغر صدیقی نے:’’بزمِ کونین سجانے کیلئے آپؐ آئے‘‘۔حضور ختمی مرتبتؐ، آیۂ رحمتؐ ، عرش منزلت کی ولادت باسعادت جن بہار پرور، گلاب آفریں، آفتاب خیز، ماہتاب ریز، ستارہ بیز، فجر انگیز،نورانی، پاکیزہ، اجلی، دودھیا ، محترم ، محتشم ، مکرم ، معظم، مجلیٰ ، مزکیٰ ، مصفیٰ، منزہ، معطر، منور، معنبر، مطہّراور مقدّس ساعتوں میں ہوئی، وہ ساعتیں سرمایۂ کائنات اور حاصلِ موجودات ہیں۔ عقیدے، عرفان، ایقان اور محسوسات سے سرشار خوش بخت اور خوش عقیدہ ہر صاحب ایمان کا اس امر پر حق الیقین ہے کہ اگر خالقِ کائنات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کائنات کی برات کا دولہا نہ بنانا ہوتا تو یہ کائنات جلال و جمال کی تمام تر دلآویزیوں، دلربائیوں، دلبریوں، رعنائیوں اور زیبائیوں سے یکسر محروم رہتی:’’کتاب ہستی کے سرورق پہ جونام احمد ؐ رقم نہ ہوتا، تو نقش ِ ہستی ابھر نہ سکتا ، وجودِ لوح و قلم نہ ہوتا‘‘یہ آپؐ ہی کے نعلین ِپا کی گرد کا صدقہ ہے کہ ربِ کائنات نے، آسمانوں کو بیکرانی ،بیابانوں کو درخشانی، آبشاروں کو ترنم، لالہ زاروں کو تبسم، پہاڑوں کو جلال، ستاروں کو جمال، پھولوں کو رعنائی، بگولوں کو برنائی، شفق کو لالی، کھیتوں کو ہریالی، قوس قزح کو رنگینی، چٹانوں کو سنگینی، آندھیوں کو جولانی، سمندروں کو طغیانی، ساحلوں کو پھیلائو،دریائوں کو بہائو، وادیوں کو شگفتگی، چشموں کو شستگی، دھوپ کو وقار،چاندنی کونکھار، صبا کو شادابی ،پارے کو بے تابی، بادلوں کو للکار، بوندوں کو جھنکار…کلیوں کو مہکار،چڑیوں کو چہکا، کوئل کو تان، عقاب کو اڑان، بجلیوں کو بے باکی ،شمشیروں کو براقی،فضائوں کوتابندگی، خلائوں کو رخشندگی، چاندی کو چمک، سونے کو دمک ،کندن کو ڈلک، موتی کو جھلک، حسن کو سادگی ، عشق کو تازگی ، جبینوں کو نیاز،دلوں کو گداز،کرنوں کو جگمگاہٹ،کلیوں کو مسکراہٹ، ریشم کو سرسراہٹ، شبنم کو نرماہٹ، وادیوں کو خندیدگی، چوٹیوں کو سنجیدگی،حسن کو ناز، عشق کوگداز، ولولوں کو ساز،دھڑکنوں کو گداز، لہروں کو اضطراب،لاوے کو التہاب،بلبلوں کو زمزمے اور زلزلوں کو ہمہمے عطا کیے۔گویا: ’داستانِ حسن جب پھیلی تو لامحدود تھی ، اور جب سمٹی تو تیرا نام ہو کر رہ گئی‘۔ ربیع الاوّل کے ماہ ِ مقدس کی یہ مبارک ساعتیں ہمیں سیرت پر عمل پیرا ہونے کا پیغام دیتی ہیں۔برقی قمقموں سے دیواریں روشن کرنے والوں کو آفتابِ فاران کی کرنوں سے اپنے دلوں کی بستیوں کو اجالنے کا بھی اہتمام کرنا چاہیے ۔ شہر کی دیواریں روشن ہوں اور دل کا نگر ظلمت گزیدہ وتاریک رہے توجشنِ چراغاں چہ معنی دارد؟ محبوبِ کائناتؐ کی زندگی کو خالق کائنات نے اسوہ ٔحسنہ سے تعبیر کیا ہے:’لقد کان لکم فی رسول للہ اسوۃ حسنۃ ‘۔ کلامِ مجید فرقانِ حمید میں تو ربِ کائنات کے اس فرمودے اور فرمان کا مطلب و مقصد یہ بتانا ہے کہ سیرتِ طیبہ کا بیاں محض سماعت کے لیے نہیںبلکہ یہ سراسر اطاعت کے لیے ہے۔    
سیرت النبیؐ ایک ایسا قلزم ذخار ہے جو بے حد و بے کنار ہے۔ اگر آسماں کے ہر افق،افق کی ہر کہکشاں، کہکشاں کے ہر ستارے، ستارے کی ہر لو ،لو کی ہرجھلملاہٹ، زمیں کے ہر سمندر،سمندرکے ہر طوفاں، طوفاں کے ہر دھارے، دھارے کی ہر موج، موج کی ہر سیپی ،سیپی کے ہر موتی، دریا کی ہر لہر، ندی کے ہر کنارے،بادل کے ہر ٹکڑے، بارش کے ہر قطرے، اوس کی ہر بوند، گھاس کے ہر تنکے،تنکے کے ہر ریشے، جنگل کے ہر درخت، درخت کی ہر ٹہنی، ٹہنی کے ہر پتے، پتے کی ہر رگ، چمن زار کی ہر کیاری ،کیاری کے ہر پھول ،پھول کی ہر پنکھڑی، پنکھڑی کی ہر دھاری ، صحرا کے ہر ذرے، مشرق کے ہر سورج، سورج کی ہر کرن، مغرب کی ہرشفق،شفق کی ہر دھنک، دھنک کے ہر رنگ اور ہوا کے ہر جھونکے کے منہ میں زبان رکھ کر اسے مدحت ِ آقائے کائناتؐ پر مامور کر دیا جائے۔۔۔اور وہ۔۔۔ صبحِ ازل سے شام ِ ابد تک یہ فریضہ بلا توقف ادا کرتے رہیں تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ پاک کے کسی ایک پہلو کا اجمالی سا احاطہ بھی نہ کر پائیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہر کوئی اعلان ِعجز اور اظہارِ بے بسی کرتے ہوئے بے ساختہ پکار اٹھتا ہے:
لایمکن الثناء کما کان حقہ
بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
سچ تو یہ ہے کہ ہم ایسے گنہگاروں نے خدا کی وحدانیت کو محض اس لئے تسلیم کیا ہے کہ اس کی تصدیق زبانِ رسالت مآبؐ نے کی ہے۔ اگر پیغام توحید آپؐ کی زبانِ صداقت ترجمان سے ادا نہ ہوتا تو کون وحدانیت ربانی کا قائل ہوتا۔ جس خدائے بزرگ و برترکی وحدانیت کا اعلان کر کے آپؐ نے جملہ انسانیت کو اس کی بندگی کا ابدی پیغام دیا وہ خدا اپنی ذات و صفات میں لاشریک ہے۔ میں یہاں برملا یہ کہوں گاکہ خدائے بزرگ و بر تر کی طرح ہمارے پیارے رسولؐ بھی اپنی ذات و صفات میں لاشریک ہیں۔شرک فی التوحید کے جرم کی طرح شرک بالرسالتؐ کا جرم بھی ناقابلِ معافی ہے۔یہ الفتوں کے سلسلے اورمحبتوں کے معاملے ہیں۔ یہاں اقبالؒ بھی عجز سخن کا اظہار یوں کرتا ہے ـ:’خدا مجھے نفس جبریل دے تو کہوں‘…عشق کے قرینوں میں پہلا قرینہ احترامِ رسالت مآبؐ ہے۔ جس دل میں یہ احترام نہیں، وہ دل نہیں پتھر کی سل ہے بلکہ اس سے بھی بدتر ہے۔سیرت کا بیان انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے۔ ایک حقیقت شناس عارف نے کہا تھاـ:’باخدا دیوانہ و با محمدؐ ہوشیارباش!‘ یہ وہ ذکر لذیذ ہے جسے ہونٹوں پر لانے سے قبل عشق و محبت کی سرمستیوں و سرشاریوں میں ڈوبے مجذوب شاعر کو کہنا پڑا تھا: ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب،ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی ست‘…گداز کے عنبر میں گندھے اور کیفیتوں کے عطر میں بسے شیخ سعدی ؒکے یہ الفاظ صدیوں سے گنبد ِافلاک میں گونج رہے ہیں اور قرنوں گونجتے رہیں گے:

بلغ العلیٰ بکمالہ کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ صلو علیہ وآلہ
 آپؐ کا ظہور، ظہورِ قدسی ہے۔ آپؐ کی شخصیت جو سر تا پا معجزہ ہی معجزہ ہے،کون ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ آپ کی صورت و سیرت یا ذات و صفات کے بیان کی قدرت رکھتا ہے۔جہاں سحبان اور عطاء اللہ شاہ بخاری ایسے معجز بیاںخطیبوں کی زبانیں گنگ ہو جائیں اور الجاحظ ،سعدی اور ابوالکلام آزاد ایسے ادیبوں کے قلم اعترافِ بے مائیگی کرتے نظر آئیں، وہاں ہما شما کس قطار شمار میں ہیں۔بس ایک خواہش ہے کہ بروزِ حشر شافع روزِ جزاہم معصیت کاروں کو اپنے دامن ِتلطف و ترحم کی چھائوں میں کھڑا ہونے کا اِذن مرحمت عطا فرمادیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...