امریکہ میں ایک کھرے پاکستانی کا انتقال

سعید اختر پاکستان میں پی ٹی وی سے وابستہ رہے۔جس کی وجہ سے ان کے دماغ میں صحافت کے جراثیم نے پرورش پائی۔ پھر وہ غمِ روزگارمیں امریکہ چلے گئے۔انہوں نے وہاں سے ایک اخبار نکالنے کا ارادہ کیا۔ وہ اس کی اشاعت کا آغاز23مارچ یوم پاکستان کو کرنے کے خواہاں تھے۔ اس کیلئے وہ پاکستان آئے اور مجھ سے ملے ۔ میں ان دنوں روزنامہ ’ ’نوائے وقت ‘‘ کی ایکٹو سروس میں تھا۔ انہوں نے فرمائش کی کہ میں انہیں یوم پاکستان کا ایک رنگین ایڈیشن ترتیب دے کر نوائے وقت پریس سے چھپوادوں۔ کلر ایڈیشن چھاپنا میرا روزانہ کا معمول تھا۔ انہوں نے اپنے اخبار کا نام ’’وطن‘‘تجویز کیا اور میرا نام اس کی پیشانی پر بطور چیف ایڈیٹر لکھ دیا۔ میں نے واضح کیا کہ میں نوائے وقت کی ملازمت کے سبب آپکے ساتھ کوئی باقاعدہ عملی تعاون نہیں کرسکوں گا۔ تو انہوں نے کہا کہ بس آپ کے احترام کے رشتے سے اخبار پرآپکانام لکھنا چاہتا ہوں۔ وہ کلر ایڈیشن پاکستان سے چھپواکر لے گئے اور اندر کے خبروں کے صفحات نیویارک جاکر چھپوائے۔ اور یوں اپنے اخبار کی اشاعت کا آغاز 23مارچ کے یوم پاکستان کے موقع پر کیا۔ اس سے ان کی پاکستان سے محبت اور والہانہ وابستگی کا ثبوت ملتا ہے ۔ نیویارک کی صحافت کا رنگ ڈھنگ نرالا ہے ۔یہ اخبار ایک ہفتے کے بعد چھپتے ہیں اور مفت تقسیم کئے جاتے ہیں۔ انکی گذربسران کو ملنے والے اشتہارات پر ہوتی ہے ۔ ان اشتہارات کا حصول ٹیڑھی انگلیوں سے مکھن نکالنے کے مترادف ہے۔ اشتہارات کیلئے ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال کیا جاتا ہے ، جو بلیک میلنگ کی انتہا کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن سعید اختر کا اخبار ’’وطن‘‘ان تمام خامیوں سے مبراّ تھا۔وہ صاف ستھری صحافت کے علمبردار تھے۔ ایک نہایت ہی مہذب انسان اور بااخلاق وباکردار۔
یاد نہیں پڑتا کہ میری ان سے پہلی ملاقات کب ہوئی۔ میں 1992ء میں امریکہ کے ایک مطالعاتی دورے پرگیا تھا ۔ یہ تین ہفتوں کا دورہ تھا۔ واپسی سے ایک روز قبل انجینئرمظہر علی ،جو نوائے وقت کے پکیّ اور سچے کالم نویس تھے ، انہوں نے اپنی تنظیم کی طرف سے گفتگو کیلئے مجھے ایک مقامی ہوٹل میں مدعو کیا۔ میراخیال ہے کہ سعید اختر سے میری پہلی ملاقات اسی محفل میںہوئی ہوگی۔ وہ بہت کم بولتے تھے۔ لیکن جب بھی زبان کھولتے تو جچی تلی رائے کا اظہار کرتے ۔ پی ٹی وی سے وابستگی کی وجہ سے وہ ملکی حالات کے شناور تھے۔ امریکہ میں پاکستانی اخبار نکالنے کی وجہ سے عالمی حالات پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ پی سی آئی اے کے رکن کے طور پر وہ لاہور کے صحافتی حلقوں میں بے حد مقبول و معروف ہوگئے ۔ برادرم مجیب الرحمن شامی کا ڈیرہ روزانہ آباد ہوتا ہے ۔ وہ پاکستان آمد پر سب سے پہلے اس ڈیرے پر حاضری دیتے ۔ اس بناء پر شامی صاحب سے ان کا تعلق ِ خاطر گہرا ہوتا چلا گیا۔ گذشتہ سال شامی صاحب نے اپنے پروگرام’’نقطہ نظر‘‘کا آغاز ہی سعید اختر صاحب کے ذکرسے کیا کہ وہ نیویارک میں سخت بیمار ہیں اور چند روز بعد ان کا آپریشن ہونے والا ہے ۔اس خبر نے مجھے لرزا کر رکھ دیا کہ ایک وجیہہ ،توانا اور تندرست انسان پر یکایک کیا افتاد آن پڑی۔ میں نے جھٹ سے ان کا فون نمبر ملایا ۔انہوں نے لڑکھڑاتی آواز میں بیماری کی نوعیت بتائی اور آپریشن کی کامیابی کیلئے خصوصی دعا ئوں کی درخواست کی ۔ یہ آپریشن کامیابی سے ہوگیا ،میرا ان سے باقاعدہ رابطہ قائم رہا۔ بالآخر انہوں نے خوشخبری سنائی کہ ڈاکٹروں نے انہیں پاکستان آنے جانے کی اجازت دے دی ہے ۔ پاکستان میں انہوں نے کئی ماہ قیام کیا۔ میرا خیال ہے کہ ان کے پاس گاڑی کی سہولت نہیں تھی اور میں بھی اس سہولت سے محروم ہوں ۔ اس لئے ہماری ملاقات تو نہ ہوسکی۔ مگر فون پر تواتر سے رابطہ قائم رہا۔ 
اس رابطے میں کچھ وقفہ پڑگیا۔ تو میں نے کوئی پانچ ،چھ روزپہلے سوچاکہ ان سے پوچھوں کہ کیا وہ پاکستان میں ہی ہیں یا واپس چلے گئے ہیں۔ عجب ستم ظریفی یہ ہوئی کہ میرے فون سے ان کا نیویارک کا نمبر ڈیلیٹ ہوچکا ہے ۔ ایک نمبر جو وہ پاکستان آکر استعمال کرتے تھے تو جواب ندارد۔وٹس ایپ پر بھی ان کا اکائونٹ بند ملا۔ اسی شام برادرم مجیب شامی نے مجھے ایک پیغام فارورڈ کیا ۔جس میں لکھا تھا کہ ہفتے بھر کی علالت کے بعد سعید اختر اس جہان ِ فانی سے رخصت ہوگئے ہیں۔ یہ اندوہناک خبر مجھ پر بجلی بن کر گری۔ میں ایک عزیز ترین دوست سے محروم ہوگیاہوں۔ وہ ایک میٹھی اور رسیلی طبیعت کے مالک تھے۔ ان کی شیریں گفتاری دل موہ لیتی تھی۔ انہوں نے جتنا عرصہ صحافت کی ، صاف ستھری روایات قائم کیں۔ نئی نسل ان کے کردارکے کئی پہلوئوں کواپنے لئے مشعل ِ راہ بناسکتی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن