رواں سال مون سون میں شدید بارشوں اور سیلاب سے پاکستان میں ہونیوالی تباہ کاریوں اور متاثرین کی بحالی کیلئے بیرونی امداد کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم شہبازشریف نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ ہمارے چینی دوست سیلاب زدگان کی مدد جاری رکھے ہوئے ہیں‘ امداد کا کل حجم 400 ملین سے بڑھ کر 644 آرایم بی ہوگیا ہے۔ حالیہ سیلاب نے پاکستان میں جو تباہی مچائی ہے‘ عالمی سطح پر اس پر نہ صرف تشویش کا اظہار کیا گیا بلکہ دنیا نے پاکستان کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے دل کھول کر متاثرین کیلئے امداد بھی بھیجی ہے۔ سیلاب کی تباہی پر ہی اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے پاکستان کے دورے کا فیصلہ کیا اور پاکستان آکر سیلاب کی تباہ کاریوں کا جائزہ لے کر انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ ناقابل واپسی کی بنیاد پر پاکستان کی بھرپور امداد کی جائے ۔ گزشتہ روز اقوام متحدہ کے ملٹری ایڈوائزر نے بھی پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات میں سیلاب سے ہونیوالی تباہی پر دکھ کا اظہار کیا اور یقین دہانی کرائی ہے کہ سیلاب متاثرین سے مکمل تعاون کیا جائیگا۔ بے شک امداد کا سلسلہ ابھی جاری ہے اور اندرون ملک بھی کئی فلاحی ادارے اور شہری ازخود امدادی کاموں میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا لگایا گیا تخمینہ ملنے والی بیرونی امداد سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان کی معیشت اب بھی زبوں حالی کا شکار ہے جبکہ بدترین سیلاب نے اس کا مزید انجرپنجر ہلا دیا ہے۔ ایسے میں سیلاب کی تباہ کاریاں پاکستان کیلئے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں جن سے نمٹنا مشکل نظر آتا ہے اس لئے عالمی برادری کو پاکستان کے ساتھ اپنا ہمدردانہ تعاون جاری رکھنا چاہیے۔ حکومت پر بھی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امداد کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنا کر دنیا کو مطمئن کرے اور بحالی کا کام جلدازجلد مکمل کرے تاکہ متاثرین جلد معمولات زندگی کی طرف لوٹ سکیں۔