سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جس سفارتی مراسلے یا ڈپلومیٹک سائفر کو بنیاد بنا کر اپنی حکومت گرانے کی ذمہ داری امریکی سازش پر ڈالی تھی اس سے متعلق حال ہی میں لیک ہونے والی دو مبینہ آڈیوز نے معاملات کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے جو صرف پاکستان کی سیاست ہی نہیں بلکہ معیشت اور بین الاقوامی تعلقات پر بھی دیرپا اثرات چھوڑ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے وفاقی کابینہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس معاملے کی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ذریعے تحقیقات اور قانونی کارروائی کی جائے گ۔ کابینہ نے آڈیو لیکس پر عمران خان، ان کے ساتھی وزراء اور وزیراعظم کے سابق سیکرٹری اعظم خان کے خلاف قانونی کارروائی کی باضابطہ منظوری بھی دیدی ہے۔
اس حوالے سے عمران خان کی پہلی آڈیو 28 ستمبر اور دوسری 30 ستمبر کو منظرِ عام پر آئی تھی۔ ان آڈیوز میں مبینہ طور پر عمران خان، اعظم خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر سائفر کی عبارت تبدیل کرنے کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں۔کابینہ نے 30ستمبر کو ہی عمران خان کی سائفر سے متعلق آڈیو لیک پر کابینہ کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے یکم اکتوبر کو منعقدہ اجلاس میں قانونی کارروائی کی سفارش کی۔ کابینہ کمیٹی کی جن سفارشات کی کابینہ نے منظوری دی ہے ان میں کہا گیا ہے کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے جس کے قومی مفادات پر سنگین مضر اثرات پڑرہے ہیں، لہٰذا قانونی کارروائی لازم ہے۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے سے کہا گیا ہے کہ وہ سینئر حکام پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے جس میں انٹیلی جنس اداروں سے بھی افسران اور اہلکاروں کو شامل کیا جاسکتا ہے۔
ایک طرف حکومت اس حساس معاملے کی تحقیقات ریاستی اداروں کے سپرد کر کے اسے سیاسی بحث سے دور کرنا چاہ رہی ہے اور دوسری جانب عمران خان مسلسل اس معاملے کو سیاسی رنگ دے رہے ہیں۔ ٹیکسلا میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ مریم نواز کی خواہش ہے کہ سائفر کہیں کھو جائے تاکہ چچا اور امریکا کی سازش کا عوام کو علم نہ ہوسکے مگر انھوں نے ڈراما کر کے مراسلے کے معاملے کو دوبارہ زندہ کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سائفر کی ماسٹر کاپی وزارتِ خارجہ کے دفتر میں موجود ہے، مریم نواز اپنے سفیر سے اس حوالے سے پوچھ سکتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہماری حکومت کو سازش کے تحت گرانے والے اب سائفر گم ہونے کا ڈرامہ کر رہے ہیں، یہ چاہتے ہیں حقیقت قوم کے سامنے نہ آئے، ثابت ہوگیا جو ہم کہتے تھے وہ سچ تھا، مراسلے کا معاملہ اٹھانے پر حکومت کا شکریہ۔ عمران خان کا کہنا تھا اس ملک کو وہ سیاست دان چاہیے جن کے ضمیر کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔
عمران خان اور ان کے ساتھی اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ بغیر ثبوت کے امریکا پر مسلسل الزام تراشی سے بین الاقوامی تعلقات کے ضمن میں پاکستان کو کتنا نقصان پہنچ چکا ہے اور مزید کتنا پہنچ سکتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ ایک ہی راگ الاپتے جارہے ہیں۔ اس رویے کی مرکزی دھارے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی سیاست دان سے ایسی توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی اور سادہ الفاظ میں اسے ملک دشمنی قرار دیا جاسکتا ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ ایف آئی اے کی طرف سے تشکیل دی جانے والی تحقیقاتی ٹیم سے تعاون کریں اور ان کے سامنے اپنا موقف رکھیں۔ یوں جلسے جلوسوں میں کسی دوست ملک کا نام لے کر اس پر مسلسل الزامات لگانے سے ان کے ہاتھ تو کچھ نہیں آئے گا لیکن ملک کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ اس حوالے سے یہ بات بھی دلچسپی کی حامل ہے کہ عمران خان امریکی سازش کا نام لے کر ملک کو تو نقصان پہنچا رہے ہیں لیکن امریکا میں اپنی ساکھ کی بحالی کے لیے انھوں نے ایک لابنگ فرم کی خدمات حاصل کی ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کابینہ کے اہم رکن ہیں لیکن ایک نجی ٹیلیویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے عمران خان کو سزا دے کر لاڈلے پن کا تاثر دور کرنے کی جو بات کی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سارے معاملات حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ اسی لیے بہت سے لوگ مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر حکمران اتحاد کے پاس اختیارات نہیں ہیں تو اسے چاہیے کہ وہ حزبِ اختلاف کے ساتھ مشاورت کر کے نگران حکومت تشکیل دے کر عام انتخابات کا اعلان کردے۔ مذکورہ انٹرویو میں سائفر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس بارے میں نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس ہوگیا ہے جس میں اہم اور بنیادی فیصلے ہوئے تاہم اجلاس کی تفصیل نہیں بتائی جاسکتی۔ کابینہ کمیٹی برائے سائفر اپنی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔
سیاسی قیادت کے رویوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو کئی دہائیوں سے جن بحرانوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان کے لیے زیادہ ذمہ دار وہ غیر سنجیدگی ہے جس سے ہمارے سیاست دان جان نہیں چھڑا پارہے۔ سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی کی حد تک لے جانا اور ایسے کرتے ہوئے ملک اور عوام کو ہونے والے نقصان کی پروا بھی نہ کرنا قابلِ افسوس بھی ہے اور لائقِ مذمت بھی۔ ہماری سیاسی قیادت اگر واقعی پاکستان کے استحکام اور ترقی کے حوالے سے ذرا سی بھی سنجیدہ ہے تو اسے چاہیے کہ نظریاتی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ملک اور عوام کے وسیع تر مفاد میں ایک پلیٹ فارم پر مل بیٹھے اور الزام تراشی کی سیاست چھوڑ کر ملک کی فلاح و بہبود کے لیے مثبت کردار ادا کرے۔