اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ شہری منیب اکرم بازیابی درخواست میں شہری کے عدالت پیش ہوجانے پر درخواست نمٹاتے ہوئے واقعہ کی انکوائری کا حکم دے دیا اور ہدایت کی ہے کہ انسپکٹر جنرل اسلام آباد 15روز میں انکوائری رپورٹ رجسٹرار آفس میں جمع کرائیں۔ لاپتہ شہری منیب اکرم کو اسلام آباد پولیس نے عدالت پیش کردیا، عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کون ہیں، کہاں تھے آپ، جس پر شہری نے بتایاکہ میں حافظ منیب اکرم ہوں، مجھے 19 اگست کو رات گھر سے کچھ لوگوں نے اٹھایا، میرا لیپ ٹاپ اور موبائل لیکر چیک کیا اور مجھے دھمکیاں دی گئیں، میں ڈر کی وجہ سے گاؤں چلا گیا اور موبائل بند کردیا، یکم اکتوبر کو گھر واپس آیا، عدالت نے استفسار کیاکہ آپ کو کس نے اٹھایا؟، جس پر شہری نے بتایاکہ مجھے علم نہیں، مگر سول کپڑوں میں لوگ آئے تھے، عدالت نے ایس ایچ او سے استفسار کیاکہ آپ کے علاقے یہ کیا ہورہا ہے؟۔ عدالت نے بازیاب شہری سے کہاکہ اگر چھ گھنٹے بعد آپ کو چھوڑا تو گھر کیوں نہیں بتایا، جس پر شہری نے بتایاکہ میں گھر والوں کو بتاتا تو گھر والے واپس لے آتے، اور مجھے دوبارہ اٹھانے کا خوف تھا، عدالت نے ڈی ایس پی لیگل پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ کہانیاں نہ بتائیں باہر سے سی ٹی ڈی آکر اس عدالت کی حدود یہ چیزیں کررہی ہیں، یہ عدالت اس قسم کے واقعات برداشت نہیں کرے گی، یہ عدالت کس کو قصوروار ٹھہرائے اب؟، یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ بچہ سچ بول رہا یا جھوٹ، ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو بتائے بغیر کسی کی ہمت نہیں کہ کوئی ایسا کام کرے، آپ کو ریاست نے لوگوں کو تحفظ کے لیے رکھا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل بتائیں کہ اس کیس کا کیا کریں؟، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالتی فیصلوں کے باوجود اگر ایسا ہوتا ہے تو ریاست کی ناکامی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ اگر ریاست ناکام ہے تو کوئی اور کیسے ہمت کرے گا، اس عدالت کو پتہ ہے کہ پولیس کے علم میں لائے بغیر ایسا کچھ ممکن نہیں، ڈی ایس پی لیگل بتائیں عدالت کس کے خلاف کارروائی کرے؟، ڈی ایس پی لیگل نے کہاکہ اس طرح کے واقعات میں سارے ذمہ دار ہیں، عدالت نے استفسار کیاکہ جو پچھلا واقعہ ہوا تھا اس میں کس کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا؟، جس پر ڈی ایس پی لیگل نے کہاکہ اس کیس میں ابھی تفتیش چل رہی ہے، عدالت نے کہاکہ اس عدالت کو زبانی باتیں نہ بتائیں، صرف یہ بتائیں کہ عدالت کس کو قصوروار ٹھہرائے تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے، یہ دوسرا تیسرا واقعہ ہے اور یہ اچانک ہو کیا رہا ہے؟ وزارت دفاع کے نمائندے نے بتایا کہ عدالت سے جب حکم ملا تو ہم نے اپنی ایجنسیوں کے پاس پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ ہمارے پاس نہیں ہے، عدالت نے کہاکہ آپ کا کام یہ نہیں کہ پتہ کریں کہ آپ کے پاس لاپتہ شہری ہے یا نہیں، مسنگ پرسنز کیسز میں ملوث ہیں، اگر یہ لڑکا نہ ملتا تو عدالت نے آپ سب کو ذمہ دار ٹھہرانا تھا، عدالت پھر سے کہہ رہی ہے کہ مسنگ پرسنز کیس کا فیصلہ پھر سے پڑھ لیں، لاپتہ افراد کیس کے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ کون کون ذمہ دار ہیں، اگر سی ٹی ڈی بھی کوئی ایسی حرکت کرتا ہے تو سیکٹر کمانڈرز کو پتہ ہونا چاہیے، فیصلہ تو اس عدالت نے 2019 میں دیا ہے اور ابھی بھی مسلسل ایسے واقعات ہورہے ہیں، ابھی تو شکر ہے یہ بچہ آگیا اگر نہ آتا تو پھر یا اس کو جو تکلیف ہوئی ہے اسکا ذمہ دار کون ہے۔ یہ دارالخلافہ ہے کوئی تورا بورا میں ہم نہیں بیٹھے، آئی جی اسلام آباد تحقیقات کرکے ریورٹ 15 روز میں رجسٹرار ہائیکورٹ کو جمع کرائیں اور پٹیشنر کو کسی بھی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے۔