پروفیسر ڈمبلڈور جہاں فانی سے کوچ کر گئے

Oct 04, 2023

عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
”ہیری پوٹر “ سے کون آشنا نہیں ہے۔ جے کے رولنگ کی افسانوی کہانیاں جب بڑی سکرین کی زینت بنی تو بچے بڑے سبھی اس کے دیوانے بنے۔ اس سیریز نے بچوں کو جادوئی دنیا سے متعارف کروایا۔ جہاں اڑنے والی جھاڑو اور جادوئی چھڑی کے انوکھے کرتب دیکھنے کو ملے۔
بچوں کے عظم، ہمت اور سچائی کی جیت اس سیریز کا پیغام تھا۔ یہاں جادو کی دنیا کا ایسا سکول دکھایا جاتا ہے جہاں بچوں کو برائی سے لڑنے کے لیے جادو کا استعمال سکھایا جاتا ۔ البتہ سیکھنے والے اپنی اپنی فطرت کے مطابق جادوئی طاقتوں کو استعمال کرتے ہیں۔
یوں تو سکول سے جڑے سبھی کردار مضبوط تھے البتہ سکول کے پرنسپل لمبی داڑھی اور چوغا زیب تن کیے پروفیسر ڈمبلڈور اور ہیری پوٹر کے درمیان استاد ‘ شاگرد کا کردار نہایت شفیق دکھایا گیا۔ چونکہ ہیری پوٹر اس سیریز کا ہیرو تھا لہذا مرکزی کردار کے ساتھ مہربان اور مددگار نظر آنے والے مسٹر ڈمبلڈور سبھی کے من پسند کردار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیزیز کے اختتام میں پروفیسر ڈمبلڈور اور ہیری پورٹر کے طویل ساتھ کو منتقی انجام یعنی ڈمبلڈور کی موت دکھائی گئی تو شائقین رونے پر مجبور ہوگئے۔ البتہ آج ہیری پوٹر سیریز کے شائقین بچے اور بڑے یہ جان کر کہ زیادہ غمزدہ ہیں کہ ان کا من پسند کردار نبھانے والے مائیکل گیمبن اب اس دنیامیں نہیں رہے۔ گزشتہ روز مائیکل گیمبن 82 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
ڈمبلڈور کا کردار نبھانے والے مائیکل گیمبن کون تھے؟ آیئے آپ کو بتاتے ہیں۔
گیمبن نے 1960 کی دہائی کے اوائل میں اسٹیج پر اداکاری شروع کی اور بعد میں ٹی وی اور فلم میں چلے گئے۔ قابل ذکر فلمی کرداروں میں 1989 میں پیٹر گرین وے کی دی کک، دی تھیف، اس کی بیوی اور اس کا عاشق، اور 2010 میں ٹام ہوپر کی دی کنگز اسپیچ میں بزرگ کنگ جارج پنجم شامل ہیں۔
لیکن ان کا سب سے مشہور کردار ڈمبلڈور کا تھا، ایک ایسا کردار جو انھوںنے 2004 میں آنجہانی رچرڈ ہیرس کی جگہ لینے کے بعد آٹھ فلموں کی سیریز کی تیسری قسط میں سنبھالا۔
گیمبون نے اپنی کارکردگی کی تعریف کی اور کہا کہ اس نے صرف خود کو ”پڑی ہوئی داڑھی اور لمبے چوغے کے ساتھ“ کھیلا۔
مائیکل جان گیمبن 19 اکتوبر 1940 کو ڈبلن میں ایک سیمسسٹریس ماں اور ایک انجینئر باپ کے ہاں پیدا ہوئے۔ یہ خاندان لندن کے کیمڈن ٹاو¿ن میں چلا گیا جب گیمبن چھ سال کے تھے کیونکہ ان کے والد نے جنگ کے بعد شہر کی تعمیر نو میں کام کی تلاش کی۔
گیمبن نے انجینئرنگ اپرنٹس شپ شروع کرنے کے لیے 15 سال کی عمر میں اسکول چھوڑ دیا اور 21 سال تک وہ مکمل طور پر اہل ہو گئے۔ تاہم، وہ ایک شوقیہ تھیٹر گروپ کے کارکن بھی تھے اور ہمیشہ جانتے تھے کہ وہ اداکاری کرےں گے، انھوں نے 2004 میں دی ہیرالڈ اخبار کو بتایا کہ وہ امریکی اداکار مارلن برانڈو اور جیمز ڈین سے متاثر تھے، جن کے خیال میں وہ نوعمر لڑکوں کے غصے کی عکاسی کرتے تھے۔
گیمبن نے 1960 کی دہائی کے دوران اسٹیج پر اپنی ساکھ بنائی۔ 1980 کی دہائی نے 1986 کے ٹی وی شو میں مرکزی کردار کے ساتھ وسیع تر توجہ مبذول کروائی، جس میں اس نے جلد کی کمزور حالت میں مبتلا ایک مصنف کا کردار ادا کیا جس کا تصور ہی اس کے درد سے نجات کا واحد ذریعہ تھا۔ انھوں نے تین اولیور ایوارڈز‘ اور دو جوڑ کاسٹ اسکرین ایکٹرز گلڈ ایوارڈز بھی جیتے۔
انہوں نے 2002 میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کے کام نے انہیں ”دنیا کا خوش قسمت ترین آدمی“ جیسا محسوس کروایا۔

مزیدخبریں