سکھ علیحدگی پسند تحریک کی وجہ سے انڈیا اور کینیڈا کے مابین تعلقات انتہائی کشیدہ ہو رہے ہیں۔ کینیڈا میں خالصتان کی حامی تنظیموں کے باعث کینیڈا اور انڈیا کے بیچ اس وقت سخت تناﺅکی کیفیت ہے۔ حال ہی میں خالصتان کے پرجوش سکھ رہنما پردیب سنگھ نجر کے قتل نے اس تناﺅ اور کشیدگی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ پردیپ سنگھ کا قتل کینیڈا میں ایسے وقت میں ہوا جب خالصتان تحریک اپنے پورے جوبن پر ہے۔ خصوصاً اوورسیز سکھ کمیونٹی اس تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے بہت زیادہ سرگرم اور متحرک دکھائی دیتی ہے۔ چونکہ کینیڈا میں سکھ بڑی تعداد میں آباد ہیں اس لیے کینیڈا خالصتانی تحریک کا محور و مرکز بنا ہوا ہے۔ کینیڈا میں رہنے والے سکھ بڑے پراعتماد ہیں کہ ایک نہ ایک دن وہ بھارت سے آزادی لے کر ہی رہیں گے۔ ان کی تحریک کو ضرور دوام حاصل ہو گا۔
قتل ہونے والے پردیپ سنگھ نجر، ان چند سکھ رہنماﺅں میں سے تھے جنہوں نے اپنا کاروبار، روزگار چھوڑ کر اپنے آپ کو محض اس ”تحریک“ کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ ”خالصتان“ کی تحریک چار دہائیوں پرانی ہے۔ لیکن امریکہ اور یورپ میں بسنے والے سکھوں کی وجہ سے اس میں جان پڑ گئی ہے۔ پردیپ سنگھ کا قتل ایک سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ ہے۔ جس میں بھارتی سرکار براہ راست ملوث ہے۔ وقوعہ کا الزام کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے ملکی تحقیقاتی ایجنسیوں کی باضابطہ رپورٹ کے بعد بھارتی حکومت پر عائد کیا۔ ٹروڈو کے اس الزام کے بعد عالمی سطح پر ایک بھونچال کی سی کیفیت ہے۔ امریکہ نے تو بھارت کو صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ کینیڈین تحقیقات میں ا±س کی ہر طرح سے مدد کرے۔کینیڈین وزیراعظم نے پردیپ کے قتل میں جب ”را“ کو ملوث قرار دیا اور سرکاری سطح پر یہ بیان بھی جاری ہو گیا تو نریندر مودی نے اس پر بہت برا منایا۔ دیکھا جائے تو عالمی جغرافیائی اور سیاسی شطرنج کی بساط پر انڈیا ایک اہم کھلاڑی ہے۔ ایسے میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک ایسی کوئی چیز نہیں چاہیں گے جو انہیں بھارت سے علیحدہ کر دے۔ اسے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مغربی ممالک بھارت کو چین کے خلاف ممکنہ بندکے طور پر ہی دیکھتے ہیں۔ تاہم کینیڈین پرائم منسٹر کے بیان کے بعد امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک نے دبے دبے الفاظ میں پردیپ سنگھ نجر کے قتل پر اظہار مذمت ضرور کیا ہے لیکن اتنا کافی نہیں۔ کینیڈین خفیہ ایجنسیوں نے جب سے اپنی تحقیقات کے بعد اس قتل کا ذمہ دار براہ راست ”را“ اور بھارتی حکومت کو ٹھہرایا ہے۔ پوری دنیا میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اس سے پاکستان کے اس الزام کو بھی گہری تقویت ملتی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کے پیچھے بھارت ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بھارت ”را“ اور اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتا رہتا ہے ۔
دنیا بھر میں خالصتان کے حامیوں نے پردیپ سنگھ نجر کے قتل کے خلاف ٹورنٹو، لندن، میلبورن اور سان فراسسکو سمیت دنیا بھرکے کیپیٹلز میں مظاہرے کئے اور پردیپ کے قتل پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔
پردیپ سنگھ کو بھارت سرکار نے انتہا پسند قرار دے رکھا تھا۔ اس سے قبل پرمجیت سنگھ پنجواڑ کو انتہا پسند کا ٹائٹل دے کر پاکستان کے شہر لاہور میں قتل کرایا گیا۔ خالصتان تحریک اب بھارت ہی نہیں پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ بھارت اس تحریک کو کوئی بھی نام دے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آزادیِ کشمیر کی طرح خالصتان تحریک بھی اب ختم ہونے والی نہیں۔
بھارت میں سکھوں کی آبادی دو فیصد ہے تاہم سکھوں کی اعلیٰ قیادت ایک علیحدہ ریاست ”خالصتان“ کا مطالبہ کر رہی ہے یہ مطالبہ چار دہائی پرانا ہے۔ انڈیا کاالزام ہے کہ ٹروڈو حکومت کینیڈا میں اب تک سرگرم سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس ناکامی کے باعث کینیڈا میں سکھوں کی یورش دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ بھارت کا یہ بھی الزام ہے کہ یہ سکھ علیحدگی پسند نہ صرف کینیڈا بلکہ امریکہ اور برطانیہ میں بھی انڈیا مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔اس وقت انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں جو تناﺅنظر آ رہا ہے اس کی ایک بڑی وجہ کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیاں ہیں۔ کینیڈا میں خالصتان کی حامی تحریک اتنے زور وشور سے چل رہی ہے کہ سکھوں کے لیے الگ ریاست ”خالصتان“ کے حوالے سے ریفرنڈم بھی کرایا جا چکا ہے۔
انڈیا اور کینیڈا کے درمیان تلخی اس وقت مزید بڑھ گئی جب جی 20کانفرنس کے دوران انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے سکھ علیحدگی پسندوں کی کینیڈا میں سرگرمیوں پر کھل کر ناراضگی کا اظہار کیا۔
اس کے بعد ٹروڈو سے بات چیت کے دوران نریندر مودی کی جانب سے کینیڈا میں خالصتان کے حامی عناصر اور تنظیموں کا معاملہ اٹھایا گیا۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ نریندر مودی اس موقع پر ٹروڈو سے کافی ناراض تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ خالصتان کے حامی عناصر انڈین سفارت کاروں پر حملوں کے لیے لوگوں کو اکٹھا کر رہے ہیں۔ وہ مختلف ملکوں میں بھارتی سفارت خانوں پر حملوں کے لیے بھی ان علیحدگی پسند عناصر کو مائل و آمادہ کر رہے ہیں۔ تاہم کینیڈین وزیراعظم نے مودی سے کہا کہ کینیڈا میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔ کینیڈا ہر حال میں پرامن مظاہروں اور آزادی اظہار کو تحفظ فراہم کرے گا۔ ٹروڈو نے انڈین وزیراعظم سے مزید کہا کہ چند افراد کے انفرادی اقدامات مجموعی طور پر کینیڈا کے معاشرے کی نمائندگی نہیں کرتے۔ تاہم اب پردیپ سنگھ نجر کے قتل کے واقعہ کے بعد دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں سخت تلخی کا عنصر غالب نظر آ رہا ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط تجارتی اور معاشی تعلقات ہیں۔ بھارت کے ہزاروں لوگ کینیڈا میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ جن میں سکھ اور ہندو، دونوں قومیتوں کے لوگ شامل ہیں۔ ان لوگوں کی بدولت بھارت کو زرِمبادلہ کی صورت میں ہر سال اربوں ڈالر موصول ہوتے ہیں۔ تعلقات بگڑے اور تجارتی روابط میں رخنہ پیدا ہوا تو بھارت کی فنانشل پوزیشن کو بڑا دھچکا پہنچے گا۔ امریکہ سمیت دیگر یورپی ملکوں نے بھی کینیڈا کا ساتھ دیا اور اس کی ہاں میں ہاں ملائی تو بھارت کو شدید تجارتی و مالی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ جس سے بھارت میں نیا معاشی بحران جنم لے سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں ان دونوں ملکوں کے تعلقات کس نہج پر جاتے ہیں اور کیا نتائج مرتب ہوتے ہیں؟