کتنا کچھ بدل گیا

کئی بار سوچتا ہوں ہم حقیقتوں سے کتنا دور چلے گئے ہیں۔ ہمیں مصنوعی پن پسند ہے ہم مصنوعی زندگی گزارنا چاہتے ہیں آرٹیفیشل ماحول ہمیں سوٹ کرتا ہے ہم مصنوعی باتیں سننا پسند کرتے ہیں۔ حقیقتوں سے نظریں چراتے ہیں حقیقتوں کا سامنا کرنے کی بجائے خیالوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ جانتے بوجھتے ہوئے بھی بےوقوف بن جاتے ہیں۔ پورے معاشرے سے سنجیدگی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ رنگ بازی غالب آچکی ہے، اچھائی برائی کا تصور بدل گیا ہے۔ عبادتوں سے لے کر ریاضتوں تک خلوص اور محبت رشتوں، یاری دوستی تک ہر چیز میں دکھاوا نمایاں ہو گیا ہے۔ ملاوٹ کے بغیر زندگی ادھوری سی لگتی ہے۔ قریبی رشتوں میں مفادات غالب آچکے ہیں۔ ہر چیز پیسے میں تلنے لگی ہے۔ مصنوعی قسم کے حالات پیدا کر کے اہداف حاصل کیے جاتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں مصنوعی، ہمارے لیڈر مصنوعی، ہمارے ٹارگٹ مصنوعی، ہمارے بیانیے اور ایجنڈے مصنوعی، ہماری منصوبہ بندی مصنوعی اور ہمارے پراجیکٹ مصنوعی۔ ایسے معلوم ہوتا ہے ہم کسی جادو نگری میں رہ رہے ہیں جہاں کوئی چیز اصلی نہیں۔ کوئی چیز خالص نہیں، کوئی بات سچ نہیں۔ اس ماحول میں ہم بہتری اور ترقی کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ دن رات گردوغبار اڑا کر منزل کی راہ دکھائی جا رہی ہے اور پھر کہتے ہیں وہ سامنے منزل ہے تمھیں دکھائی نہیں دے رہی۔ جن چیزوں کو ہم کل تک برا سمجھتے تھے انھیں آج اچھا سمجھا جا رہا ہے۔ آج کے بچے عقلمند ٹھرے اور بزرگ نابلد تصور کیے جانے لگے ہیں۔ کبھی کرپشن کرنے والے کو معاشرے کا بدترین کردار تصور کیا جاتا تھا۔ آج اسے سمارٹ تصور کیا جاتا ہے۔ کل جسے اختیارات اور مواقع ملنے کے باوجود اس سے فائدہ نہ اٹھانے والے کو ایماندار اور شریف سمجھتے تھے اس کی عزت کی جاتی تھی۔ آج معاشرہ اسے بے وقوف تصور کرتا ہے۔ کل تک باعزت ہونے کا معیار اخلاق تھا آج عزت دار ہونے کا معیار پیسہ ہے۔ اس معاشرے میں جس کے پاس دولت آگئی وہ معاشرے کا باعزت شہری ہے چاہے اس نے دولت قتل کر کے، ڈاکے مار کر، منشیات فروشی کرکے یاکوٹھی خانے چلا کر یا زمینوں پر قبضہ کر کے حاصل کی ہو۔ وہ اس معاشرے کا بااثر اور عزت دار آدمی بن جاتا ہے۔ رشتے دار راشی کی قدر کرتے ہیں۔ جو اصول پسند اور حق حلال کی کماتا ہے اس سے سلام دعا رکھنا گوارا نہیں کیا جاتا۔ معاشرہ اس حد تک انحطاط پذیر ہوچکا ہے کہ پہلے لوگ امیری غریبی کو بالائے طاق رکھ کر صرف شریف اور عزت دار لوگوں کے ساتھ رشتہ داری کرتے تھے۔ اب لوگ اپنے بچوں کی شادیاں وہاں کرنا چاہتے ہیں جن کے پاس مال ومتاع وافر ہو۔ ان کا کردار کیا ہے اس کونہیں دیکھا جاتا۔ آج تو تعلق بھی اس بندے کے ساتھ رکھا ہے جس سے مفاد کی توقع ہو۔ صحافت کے شعبہ میں جس کے بارے میں علم ہو جاتا تھا کہ اس کا ایجنسیوں سے رابطہ ہے اس کو کوئی منہ نہیں لگاتا تھا۔ آج ایجنسیوں کے ٹاوٹس اور سیاسی جماعتوں کے مخبروں کو سب سے باخبر صحافی سمجھا جاتا ہے۔ کل تک اس تعلق کو برائی سمجھ کر چھپایا جاتا تھا آج فخر سے اس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ پہلے سستی شہرت کو معیوب سمجھا جاتاتھا۔ آج واہ واہ کروانے کو کامیابی گردانا جاتا ہے۔ بہت اعلی عہدوں پرمتعین شخصیات بھی ایسی باتیں اور ایکٹ کر جاتی ہیں جو زیر بحث لانا مقصود ہوتا ہے حالانکہ وہ ان کے عہدوں کے شایان شان نہیں ہوتا۔ پہلے اقدامات سے بہتری لانے کو ہی کام سمجھا جاتا تھا آج لوگوں کو متاثر کرنا کامیابی ہے۔ آج زیر بحث رہنا مقبولیت کی معراج سمجھا جا رہا ہے۔ کل تک لیڈران اور سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ سے اپنے تعلق کو چھپاتیں تھیں آج کھلے عام اظہار کر کے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ہماری لائن سیٹ ہو گئی۔ تمھاری پسند ناپسند سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑنا۔ لوگ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں کہ آج کل کس کی یس ہے۔ عوام کی خواہش اور رائے بے معنی ہو گئی ہے۔ فیصلے غالب آچکے ہیں۔ بہت کچھ بدل چکا اور بہت کچھ بدلنے جا رہا ہے۔ بس دیکھتے جاو سنتے جاو۔ بولنا اور اظہار کرنا منع ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...