معزز قارئین ! عظیم و کبیر اِنسانوں کو صرف ا±ن کی سالگرہ یا یوم وِصال پر ہی نہیں بلکہ کسی بھی وقت یاد کِیا جاسکتا ہے۔ ”مفسرِ نظریہ پاکستان“ اور تحریک پاکستان کے نامور مجاہد جنابِ مجید نظامی 3 اپریل 1928ءکو پنجاب کے علاقہ سانگلہ ہِل میں پیدا ہ±وئے اور 26 جولائی 2014ءکو خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ موصوف جب تک اِس دارِ فانی میں رہے، مصّور ِ پاکستان، علاّمہ محمد اقبال، بانی پاکستان، قائداعظم محمد علی جناح اور مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کے افکار و نظریات کے مطابق پاکستان کو ڈھالنے میں مصروف ِ جدوجہد رہے۔ خرابی صحت کے باعث مَیں بروقت، جنابِ مجید نظامی کے اعزاز، ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کے واقعہ کو یکم اکتوبر کو قلم بند نہیں کر سکا لیکن زندہ و جاوید شخصیات کے اہم واقعات تو زندہ ہی رہتے ہیں۔
مَیں نے1960ءمیں مسلک صحافت اختیار کِیا، جب مَیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ”بی اے فائنل“ کا طالبعلم تھا، پھر فروری 1964ءمیں جنابِ مجید نظامی نے مجھے سرگودھا میں ”نوائے وقت“ کا نامہ نگار مقرر کِیا۔ 2 جنوری 1965ءکے صدارتی انتخاب میں (قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابل تھیں۔ جنابِ مجید نظامی نے محترمہ فاطمہ جناح کو ”مادرِ ملّت“ کا خطاب دِیا، ا±ن دِنوں بھی مَیں نے سرگودھا ڈویڑن میں مادرِ ملت کے کئی جلسوں میں شرکت کی۔
”مادرِ ملّت سے ملاقات ! “
معزز قارئین! صدارتی انتخاب سے پہلے ضلع سرگودھا میں مادرِ ملّت کی انتخابی مہم کے انچارج تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن قاضی م±رید احمد مجھے اور میرے صحافی دوست تاج ا±لدّین حقیقت کو مادرِ ملّت سے ملاقات کے لئے لاہور لائے تو ا±سی وقت میری تحریکِ پاکستان کے دو کارکنان، لاہور کے مرزا شجاع ا±لدّین بیگ امرتسری (موجودہ چیئرمین پیمرا، پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ کے والد صاحب) اور پاک پتن شریف کے چودھری محمد اکرم طور (اردو، پنجابی کے نامور شاعر سعید آسی کے والد صاحب) سے ملاقات ہ±وئی، دونوں حضرات سے میری دوستی ہوگئی اور پھر پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ اور سعید آسی صاحب سے بھی۔ تحریک پاکستان کے دَوران مرزا شجاع ا±لدّین بیگ امرتسری کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہ±وا شہید ہوا اور چودھری محمد اکرم طور نے قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کِیا تھا۔
مَیں نومبر 1969ءمیں لاہور شفٹ ہوگیا۔ یکم نومبر 1971ءکو مَیں نے لاہور سے اپنا ہفت روزہ پنجاب اور 11 جولائی 1973ءکو روزنامہ ”سیاست“ جاری کِیا۔ مئی 1991ء میں مَیں نے اپنا کالم ”سیاست نامہ“۔ ”نوائے وقت“ میں شروع کردِیا جو ڈیڑھ سال تک جاری رہا، ”نوائے وقت“ میں میری کالم نویسی کا دوسرا دَور جولائی 1998ءسے جون 1999ءتک جاری رہا اور تیسرا دَور اگست 2012ءسے جنابِ مجید نظامی کی وفات کے بعد بھی۔ اِس دَوران مَیں نے پاکستان کے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے ر±کن کی حیثیت سے آدھی د±نیا کی سیر کی، ستمبر 1991ءمیں مجھے صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے ر±کن اور ”نوائے وقت“ کے کالم نویس کی حیثیت سے ا±ن کے ساتھ خانہ کعبہ میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہ±وئی۔ یقینا اِس کا ثواب جنابِ مجید نظامی کو بھی ملا ہوگا؟
” ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری!“
یکم اکتوبر 2012ءکو پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ عظیم و ا±لشان تقریب میں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے (ا±ن دِنوں) وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے جناب مجید نظامی کو "Doctorate" کی اعزازی ڈگری پیش کرنے کا اعزاز حاصل کِیا۔ تقریب میں مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین، (ا±ن دِنوں ) وائس چیئرمین ”نظریہ پاکستان ٹرسٹ“ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد (اب مرحوم) سینئر صحافی مجیب ا±لرحمن شامی ، سیّد فصیح اقبال (اب مرحوم)، پروفیسر ڈاکٹر مجاہد علی منصوری، کرنل (ر) سیّد امجد حسین (اب مرحوم)، سینئر اساتذہ، یونیورسٹی کے طلبا اور مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے (خواتین و حضرات) موجود تھے۔
معزز قارئین! مَیں نے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کی طرف سے جناب مجید نظامی کو ”ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری“ پیش کرنے کے اعزاز پر نظم لکھ دِی تھی لیکن مَیں خرابی صحت کی بنائ پر اسلام آباد سے لاہور حاضر نہ ہو سکا۔ میری غیر موجودگی میں میری نظم ڈائریکٹر پروگرامز چودھری سیف اللہ نے پڑھ کر س±نائی تھی۔ پیش کرتا ہوں....
”بابا مجید نظامی ہوراں تے‘ رب‘ رسول دا ساےا اے!“
....O....
شاعرِ مشرق دے س±فنے ن±وں خالِق آپ سجایا اے!
س±وہنے قائدِاعظم‘ پاکستان دا ب±وٹا لاےا اے!
نظریہ پاکستان دا وارث ساڈے ویہڑے آیا اے!
بابا مجیدنظامی‘ ہوراں تے‘ ربّ رسول دا سایا اے!
....O....
قریہ‘ قریہ‘ قائدِاعظم دے‘ افکار ن±وں‘ عام کِیتا!
پاکستان مخالف‘ سازشی لوکاں ن±وں‘ ناکام کِیتا!
سچّا پاکستانی‘ حمیدنظامی دا ‘ ماں جایا اے!
بابا مجیدنظامی ‘ ہوراں تے‘ رب‘ رسول دا سایا اے!
....O....
ساری حیاتی‘ ایس مسِیحا‘ ٹ±ٹّے ہوئے‘ دِل جوڑے!
راہِ براہِیمیؑ تے‘ چل کے آمرِیت دے‘ ب±ت توڑے!
ویلے دے سب‘ فرِعوناں تے‘ نم±روداں ن±وں ڈھایا اے!
بابا مجیدنظامی ‘ ہوراں تے ربّ رسول دا سایا اے!
....O....
قائداعظم دی ‘ ہمشِیر ن±وں ‘ دِتّا مادرِ مِلّت ‘ ناں!
لالٹین دی ‘ لو نال ‘ د±ور ہنیرے کِیتے ‘ قوم دی ‘ ماں!
جدوجہد عوامی‘ ساڈِیاں یاداں دا ‘ سرمایا اے!
بابا مجیدنظامی‘ ہوراں تے ربّ رسول دا سایا اے!
....O....
اللہ ھ±و تے ‘ عِشقِ نبی دی ‘ نماز نِیتی ‘ س±بحان اللہ!
ستّر سال ‘ صحافت دی ‘ خدمت کِیتی‘ س±بحان اللہ!
پنج دہائِیاں تِیکر‘ ایڈیٹر دا رول ‘ نبھایا اے!
بابا مجیدنظامی ‘ ہوراں تے ربّ رسول دا سایا اے!
....O....
ڈاکٹرِیٹ دِی ڈِگری ‘ اثر چوہان جی ‘ اِک اعزاز‘ تے ہے!
ایس ڈِگری تے طالب عِلماں ‘ ا±ستاداں ن±وں ‘ ناز تے ہے!
کرکے قبول ‘ نظامی ہوراں ‘ ڈِگری دا مان ‘ ودھایا اے!
بابا مجیدنظامی‘ ہوراں تے ربّ رسول دا سایا اے!
(جاری ہے )
٭....٭....٭