طلبا یونین، ہاں یا ناں

Oct 04, 2023

 تحریر انور خان لودھی
ہمارے تعلیمی اداروں میں طلبا یونینز کونی چاہئیں یا نہیں، یہ بحث تین چار عشروں سے جاری و ساری ہے۔ اس مباحثے میں اس وقت تیزی آ جاتی یے جب کسی معتبر فورم سے طلبائ یونینز کی بحالی کی بات چھیڑ دی جاتی ہے۔ تازہ پیش رفت میں وفاقی وزارت تعلیم نے اسلام آباد کی یونیورسٹیز اور کالجز میں طلبائ یونین کی بحالی, اس کے فوائد و نقصانات جانچنے کے لئے 14 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی 10 روز میں اپنی سفارشات مرتب کرکے جمع کرائے گی۔ کمیٹی میں چار یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، تین کالجوں کے پرنسپلز، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہائر ایجوکیشن کمشن پاکستان، کچھ طلبا اور ایک اعلیٰ بیوروکریٹ(کنوینر) شامل ہیں۔ چلو اسلام آباد ہی سہی کام شروع تو ہو۔ یونینز کا ڈربتو ختم ہوگا۔ اس کے مخالفین صرف تشدد بڑھ جانے کی دلیل دیتے ہیں جبکہ فائدے ہزار ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں موجود ہر کردار کی کوئی نہ کوئی تربیت گاہ ہوتی یے۔ صرف سیاستدان وہ مخلوق ہیں جن کی باقاعدہ تربیت و رہنمائی کیلئے کوئی بنیادی ادارہ نظر نہیں آتا۔ باپ دادا سے سیکھی سیاست کا معیار بھی اجداد سا ہوگا۔ اس میں معاشرے نے کیا کردار ادا کیا۔ اگر سیاستدان احسن طریقے سے سیاست نہیں کر پاتے تو معاشرے سے بھی سوال بنتا یے کہ سیاستدان کی تربیت کی تھی کیا ؟ طلبا یونینز سیاستدان پیدا کرتی ہیں۔ ان سے خائف ہونے کی بجائے ان کو ریگولیٹ کرنے، قواعد و ضوابط بنانے اور ان کی حدود و قیود متعین کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اچھی ہرفارمنس پر طلبا یونینز کے عہدیداراوں اور اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنے والے ان کے فیلوز کیلئے انعامات رکھے جائیں، ہر قسم کے انٹرویو میں یونین رہنماوں کیلئے مارکس مخصوص کرنے اور اس نوع کی دیگر مراعات طے کرنے سے مثبت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مزدوروں اور طلبا کو فعال کیا گیا۔ انہیں ان کے حقوق سے آشنا کیا گیا تو مزدور یونینز اور طلبائ یونینز وجود میں آئیں۔ ان کے بعد جنرل ضیائ اقتدار میں آئے تو انہوں نے بغض معاویہ میں فروری 1984 میں طلبائ مزاحمت کے خوف سے طلبائ یونین پر پابندی لگادی۔
 مختلف طلبہ گروہوں کے درمیان تشدد و لڑائی جھگڑے کی بنیاد پر پوری طلبہ سیاست پر لگی اس پابندی کا اگر جائزہ لیا جائے تو کیا طلبہ سیاست پر پابندی اور ایفیڈیوٹ دستخط کروانے کے باوجود ان چار عشروں میں کوئی تشدد کے واقعات نہیں ہوئے؟ ضیائ کی یونینز پر پابندی لگانے کے بعد پیپلز پارٹی حکومت نے ایک ایکٹ کے ذریعے 1989 میں یونینز کو بحال کر دیا۔ چار سال بعد 1993، سپریم کورٹ میں اسماعیل قریشی بنام محمد اویس قاسم (سیکٹری جنرل اسلامی جمیعت طلبہ) کیس کے فیصلہ میں جسٹس افضل نے فیصلہ دیا جس میں صاف یونین پر پابندی تو نہیں لگائی گئی لیکن اس کے تحت ہر تعلیمی ادارہ طالب علم سے حلف نامہ لے گا کہ وہ اگر سیاست میں ملوث ہوا تو ادارہ اسے نکالنے کا حق رکھتا ہے ساتھ ہی والدین سے بھی دستخط کا کہا گیا۔ اس سب کا فیصلہ بھی مختلف طلبہ تنظیموں میں لڑائی جھگڑوں کی بنیاد پر کیا گیا اور باقاعدہ اداروں کے سربراہان اور کچھ طلبہ سے آرا بھی لی گئیں۔ پھر بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد خان رئیسانی کے متعارف کروائے گئے اس معاہدہ خط (undertaking) کو دیکھتے ہوئے حلف نامے کا پابند کیا گیا۔ فیصلہ میں ”indulge in Politics“ کی اصطلاح استعمال کی گئی اور اس کا تمام اختیار متعلقہ ادارہ کو دیا گیا کہ وہ اس کو اپنے علاقہ، کلچر و اکثریتی طلبہ کو دیکھتے ہوئے اس کی تعریف کرے۔ کیس کی کاروائی بڑی دلچسپ ہے جج صاحب فرماتے ہیں ہم مکمل طور پر مطمئن ہیں کہ یونین کے اقلیتی نمائندے اکثریتی طلبہ کا آزادی اظہار اور آزادی کا حق مارتے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ یونین کے جو نمائندگان تعلیمی ادارے کی پالیسی ساز باڈی کا حصہ ہیں یہ نا صرف اساتذہ کے وقار پر سوال ہے بلکہ پورے ادارہ کے وقار پر سوال ہے آگے سے یہ نمائندگان ایسی کسی باڈی کا حصہ نہیں رہیں گے اور اپنے جو مطالبات ہوں وہ درخواست دیں گے سٹوڈنٹ افئیرز کے سربراہ یا ادارہ کے سربراہ کو اور اگر کوئی ایسے معاملہ ہوا تو سپریم کورٹ سے بھی اس کے لئے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کا اثر یہ ہوا کہ کاغذی طور پر تو یونین پر پابندی نہیں لگی پر یونین کے وجود اور اس کی کام کے طریقہ کار پر قدغن لگا دی گئی۔
ایک طلبا تنظیم نے اس فیصلہ کی بھر پور حمایت کی اور عدالت میں اپنے نوٹس بھی جمع کرائے اور کہا اداروں میں نظریہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع بہت ضروری ہے اور طلبہ کی فکری و نظریاتی تربیت کے لئے ایسی تنظیمیں ضرور ہونی چاہیں۔ سپریم کورٹ نے اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے قرار داد مقاصد کا حوالہ بھی دیا کہ کیسے نظریہ پاکستان کا دفاع ضروری ہے اور اداروں کو تاکید کی کہ وہ نظریہ پاکستان کا پرچار کریں نہیں تو انہیں حق نہیں پہنچتا کہ وہ بطور ادارہ ادھر کام کریں۔ سپریم کورٹ نے کیس کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے کہا کہ اس فیصلہ پر وقتاً فوقتاً ریویو بھی کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے طلبہ یونین کو صرف تشدد کے ساتھ جوڑ دیا اور اسی فیصلہ کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں غیر سیاسی کلچر پروان چڑھا۔ جہاں تک violence کا سوال ہے کہ طلبہ یونین پر تشدد ہوتی ہیں تو یونین تو پارلیمنٹ کی طرح کا ایک ادارہ جہاں مختلف تنظیموں سے طلبہ، مسائل کی نمائندگی اور ان پر بات کرنے کے لئے جمہوری طور پر ایلیکٹ ہوتے ہیں۔ پوری دنیا میں طلبہ یونین بغیر کسی رکاوٹ کے ایک سود مند ادارہ ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان کے خلاف تحریک میں عروج والی طلبہ سیاست کمزور اور قدامت پسند شکل اختیار کر گئی جس کا اجتماعی مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ طلبہ کی مزید ذہن بندی کا کام تعلیمی پالیسیوں اور نصاب سے لیا گیا جس سے ان کے اندر تنقیدی سوچ پروان نا چڑھے اور وہ حکومت، اس کی نظریاتی شناخت اور سپرا سٹرکچر کے وفادار رہیں۔ نظریاتی موافقت پیدا کرنے کے لئے بائیں بازو کے اساتذہ کو نشانہ بنایا گیا، ان کی جگہ قدامتی سخت گیر اساتذہ کو لگایا گیا اور نصاب میں رجعتی سوچ کے عکاس مواد کو ڈالا گیا۔ طاقتور حکام نے وہ سب پا لیا جو وہ چاہتے تھے طلبہ کی نرم و شائستہ کھیپ اور کنٹرولڈ غیر سیاسی کیمپس کلچر جس پر وہ بار بار زور دے رہے تھے کہ طلبہ بغیر کسی خلفشار کے تعلیم جاری رکھیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ پابندی اور طلبہ یونین کی عدم موجودگی کے اتنے سالوں کے باوجود پاکستان کا تعلیمی نظام صرف گرا ہے۔ کوئی بھی پاکستانی یونیورسٹی دنیا کی 200 بہترین یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں نہیں ہے۔ آج اس تعلیمی نظام میں اداروں میں احتساب کا صاف فقدان ہے۔ طلبہ یونین کی غیر موجودگی نے حکام کو اس بات سے بے نیاز کر دیا ہے کہ کوئی نیچے سے ان سے کارکردگی اور اصلاح کے لئے دباو? ڈال سکے۔ جس کی وجہ سے اقربا پروری اور کرپشن کلچر پروان چڑھا ہے۔ یونینز طلبہ کی ایک اجتماعی طاقت ہوتی ہیں جو طلبہ کے فیس سے لے کر ہاسٹل و پالیسیز کے معاملات پر حکام سے بات چیت کرتی ہیں۔ آج جو بھی طالب علم انتظامی بے رخی، نا اہلی یا کرپشن پر بات کرتا ہے تو اسے یونیورسٹی سے نکال دینے کا خوف اور یہاں تک کے دہشتگردی کے پرچوں سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ جملہ بار بار دہرایا جاتا ہے کہ طلبہ کو سیاست کے بجائے تعلیم پر توجہ دینی چاہیے کہ سیاسی سرگرمی، تعلیمی کارکردگی کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس بات کا حقیقت سے بہت کم تعلق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا کی اچھی یونیورسٹیاں آکسفورڈ سے لے کر ہارورڈ تک سب میں طلبہ یونینز تنظیمیں ہیں۔ جب کہ پتہ نہیں کیوں پھر ہمارے غیر سیاسی اور کنٹرولڈ ادارے دنیا میں پسماندہ شمار ہوتے ہیں۔

مزیدخبریں