-کلمہ حق ۔ نواز خان میرانی
محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لفظ کو ادا کرتے ہوئے خواں کوئی کسی بھی مسلک یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو تو وہ دفعہ بوسہ لے کر ہی اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ادائیگی کرے گا۔ ایک دفعہ پہلی "میم" بولتے ہوئے اور دوسری دفعہ دوسری "میم" بولتے وقت۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پرنور شخصیت کے بارے میں جہاں اللہ نے ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ہدایت بلکہ تنبیہ فرمائی کہ جہاں تھوڑی سی لغزش ، اعمال کے اسلوب ہونے کا باعث بن سکتی ہے۔۔۔۔ مگر دوسری جانب قبولیت کے کہے یا بولے ہوئے چند لفظ انسان کی زندگی و آخرت کے لیے نہ صرف باعث نجات بلکہ توشہ حیات و آخر بن جاتے ہیں۔ سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی جان کا نظرانہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں پیش کر کے غازی علم الدین شہید بن جاتے ہیں۔۔۔۔ اور کئی دانت تڑوا کر اویس قرنی نی بن جاتے ہیں۔
ایسی ہستی جس کا کوئی مقابل نہیں، جس کی کوئی مثال نہیں، جس کا کوئی ثانی نہیں۔ حضور کی ذات اقدس کامل و اکمل تھی۔ حسن مکمل، حسن سراپا، حسن تمام، متناسب جسم، متناسب قدوقامت جہاں بھی اور جس محفل میں بیٹھتے نمایاں نظر آتے ، جب اپ ابھی تقریبا 10 سال کے تھے تو اقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شفیق چچا حضور کی جانب نہایت پیار سے دیکھ دیکھ کر کہتے تھے کہ قسم خدا کی میرے بھتیجے کے سر پر سرداری سجتی ہے۔ آپ کی کالی زلفیں جو قدرے خم کھائی ہوئی ہوتی تھیں کبھی کانوں کی لو تک اور زیادہ سے زیادہ کندھوں تک پہنچ جاتیں۔ اپ کا رنگ مبارک انتہائی سفید بلکہ ایسا لگتا تھا کہ نور کی شعاعیں پھوٹ رہی ہیں۔ اب کے ابرو کشادہ دانت نور کی لڑیاں اور نور کے موتی کی طرح صاف سفید اور چمکدار تھے۔ ایک دفعہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کے بارے میں استغفار کیا۔ تو آقا نامدار نے جواب دیا کہ زلیخہ کی سہیلیوں نے تو یوسف کو دیکھ کر اپنی انگلیاں کاٹ لی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایااگر آپ کا دیدار کر لیتی تو اپنی گردنیں کاٹ لیتی سبحان اللہ۔ جہاں بیٹھتے اندھیرا نور ہو جاتا ان کے دم قدم سے ظلمت کوسوں دور بھاگتی تھی۔۔۔۔۔ حضور کی پلکیں دراز آنکھیں انتہائی خوبصورت اور پرکشش کالی آنکھیں اور اندر والا حصہ بہت سفید، آنکھوں میں سرخ ڈورے حضور کی نبوت کی نشانی تھے اور پرانے صحیفوں میں حضور کی نشانی کے طور پر بھی اس کا ذکر موجود تھا۔ حضور کی آنکھوں کی خوبی بے مثال تھی وہ دور اور نزدیک کی اشیاءکو بخوبی دیکھ لیتے تھے۔ حتی کہ اندھیرے میں بھی آپ کی آنکھ مبارک ویسے ہی دیکھ سکتی تھی۔ چراغ کی مانند روشن پیشانی کشادہ اور مہتاب کی مانند چمکدار تھی۔۔۔۔۔ حضور کے خوبصورت گلابی سرخی مائل لبوں کی یہ شان اور یہ عظمت تھی کہ اللہ نے ان کے لب مبارک سے نکلے ہوئے کسی مطالبے اور خواہش کو کبھی رد نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ انہی لبوں پہ ہمیشہ دل آفریں مسکراہٹ سجی رہتی اپ کو کبھی کسی نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ خاتم النبیین کو جب یہودی طعنے دیا کرتے تھے کہ بیت المقدس کی جانب منہ کر کے تو ہم نماز پڑھا کرتے ہیں۔ مسلمان مشرق کی طرف منہ کر کے کیوں نماز پڑھتے ہیں حضور نے آسمان کی جانب نگاہ اٹھائی۔ اللہ زوالجلال و اکرام سے ان کی رنجیدگی اور پریشانی دیکھی نہ گئی اور اللہ نے مغرب کی جانب رخ موڑنے کی اجازت فرمائی۔۔۔ اپ رحمت دو جہاں تھے خدا کا فرمان ہے کہ اگر حضور نہ ہوتے تو میں کائنات تخلیق نہ کرتا۔ شان اور عظمت کے کیا کہنے۔
حضور پر نور کے مضبوط کندھوں کے درمیان مہر نبوت ثبت تھی۔ اپ کی رلیش مبارک گھنی اور نہایت متناسب تھی۔ آپ کا شکم مبارک سینہ مبارک کے ساتھ ہموار تھا۔ کیونکہ آپ خوراک میں انتہائی اعتدال فرماتے تمام عمر آپ کا شکم مبارک ایسے ہی رہا۔
سادگی کا یہ عالم تھا کہ پیٹ پر تھر باندھنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ ٹاٹ پر سو جاتے تھے حتی کہ ٹاٹ کو دہرا کر بچھانے سے حضور کو نیند نہ آتی۔ حضور جو کی روٹی پسند فرماتے یہاں تک کہ کبھی متواتر دو روز تک جو بھی حضور نے کھائی۔ دور جو تکیہ استعمال فرماتے اس میں کھجور کا گودا بھرا ہوتا تھا۔ کبھی چٹائی پر ارام فرماتے تو جسم اطہر پر چٹائی کی نشانات واضح ہو جاتے تھے۔۔۔۔۔ حالانکہ نزاکت جسم کا یہ حال تھا کہ پسینہ مبارک سے مشک و امبر سے بھی بڑھ کر خوشبو آتی۔ حضور کے دست مبارک ریشم سے بڑھ کر نرم اور ہتھیلیاں گوشت سے بھری ہوئی اور بے حد خوشبودار تھیں جس سے مسافہ فرماتے وہ اپنے ہاتھوں میں خوشبو محسوس کرتا۔ جس بچے یا جس شخص پر دست مبارک رکھتے اس میں اللہ کی برکت اور رحمت شامل ہو جاتی اور وہ خود معطر ہو جاتا۔ حضور کا مصافہ کا انداز اس قدر رحمت بھرا اور مشفقانہ تھا ہوتا کہ جب تک دوسرا ہاتھ واپس نہ کرتا اپ اپنا ہاتھ نہ کھینچتے۔ حضور کبھی اپنی چاندی کی انگوٹھی بھی پہنتے اور نگینے کا رخ ہتھیلی کی جانب موڑ دیتے۔۔۔۔۔۔۔ اپ کے دس مبارک پھیرنے سے لوگوں کی انکھوں کی تکلیف کی?وں کے زخم، اور مریضوں کو مکمل شفا?صحت یابی نصیب ہو جاتی۔
حضور کی باتیں اور برکتیں اس قدر ہیں کہ جس کے ذکر کے لیے یہ عمر کم ہے چاہے کتنی طویل ہو غلامان مصطفی میں سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیر رحمت اللہ علیہ سے لے کر داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ تک دنیا بھر کے کتب، اوتار اور اولیا شامل ہیں۔ ان کی عظمت کی اس سے بڑھ کر کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ جس نے اللہ تعالی سے بالمشافہ ملاقات کی ہو۔ کسی انسان کو اس جیسی پزیرائی نہ کبھی ملی ہے نہ ملے گی۔
دور کی وفات کے وقت عزرائیل دست بستہ حاضر ہوا ملاقات کی اجازت چاہی اور کہا کہ اللہ بزرگ و برتر آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ حضور نے جواب دیا تم وہ کرو جو خدا چاہتا ہے۔۔۔۔عزرائیل نے کسی انسان سے اج تک نہ اجازت لی ہے اور نہ لے گا۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امتی ہیں۔ پیغمبروں کی یہ خواہش رہی کہ وہ حضور کے امتی ہوتے۔ اللہ کی راہ میں اگر کوئی مسلمان ایک قدم چلتا ہے تو اللہ دس قدم اس کی جانب چلتا ہے اور دس گنا نیکی کا ثواب وہ اجر ملتا ہے۔ حضور کی شان دیکھیے کہ ان کی ذات مبارک پر درود بھیجنے والے کو نہ صرف دس نیکیاں ملتی ہیں بلکہ دس گناہ معاف اور 10 حاجات بھی پوری ہوتی ہیں اور اللہ خود بندے کے ساتھ درود بھیجتا ہے۔ درود کا پڑھنا ایسی عبادت ہے کہ وہ کبھی رد نہیں ہوتی۔ ہماری نسبت اور تعلق کا یہ تقاضا ہے کہ حضور کی بارگاہ میں کثرت سے درود پڑھیں اور کثرت کی کم سے کم تعداد 300 ہے۔ خصوصا جمعہ والے دن عصر اور مغرب کے درمیان حضور خود درود وصول فرماتے ہیں۔