پی ٹی آئی نے ملک مین جو بدتمیزی ، بد تہذیبی کا معاشرہ جنم دے دیا ہے وہ کب اور کیسے ٹھیک ہوگا اسکا جواب اسوقت کسی بھی افلاطون کے پاس نہیں، سیاست ایک طر ف نفرتوںنے گھروں کے اندر ، باہر ، معاشرے کے ہر طبقے کومتاثر کردیا ہے ،ہر شعبہ تقسیم ہوچکا ہے ،معاشرے کو اس مقام پر لانے کیلئے پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں حکومتی خزانے کو استعمال کرتے ہوئے خوب کام کیا ، اسوقت کی وزارت اطلاعات نے سوشل میڈیا کے ہزاروںلوگوں بھرتی کیا ، پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میںپچاس ہزار سوشل میڈیا کے متحرک لوگوںکو ملازمتیںدیں جنکی تنخواہیں فی ملازم 25000روپیہ تھیں بعد میں آنے والی نگران حکومت نے گو کہ سلسلہ ختم کردیا تھا مگر پی ٹی آئی بیج بوچکی تھی ، اس سوشل میڈیا نے پاکستان میںنفرتوںکو جنم دیا، عسکری قیادت کی بدنام کرنے ، اور دنیا کو یہ بتانے پر معامور رہا کہ پاکستان میں بہت ظلم و ستم ہورہا ہے بد ازاں پی ٹی آئی کے باہر اور اندر بیٹھے لیڈران یہ کام ہندوستان میں بیٹھے سوشل میڈیا ماہرین کے سپرد کردیا جس ہزار سوشل میڈیا اکاﺅنٹس بند تو کردئے گئے ہیں مگرملک سے باہر بیٹھے سوشل میڈیا کا کچھ نہ ہوسکا ، نیز ملک میں گرفتار دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو سزائیں 16 ماہ ہونے کے باوجود کچھ نہ ہوسکا تو ملک میں بیٹھے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اراکین پھر اسی راستے پر ایک بار چل پڑے ہیں چونکہ اب انکا خوف ختم ہوگیا اور وہ سب کچھ معمول کے مطابق سمجھ رہے ہیں،پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ اب اسرائیل اور یورپی میڈیا بھی شامل ہوچکا ہے ، ایک عجیب قسم کا شخص صوبہ سرحد میں وزیر اعلی ہے وہ جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ کہیں جاکر پاﺅ ں بھی پکڑ کر معافی مانگ لیتا ہے ، یا پھر خدشہ یہ بھی ہے وہ عجیب قسم کا وزیر اعلی پی ٹی آئی کو مزید بدنام کرنے پر مامور ہے اسلئے اسے ہر بات کہنے کی اجازت ہے ۔اب صورتحال یہ ہے کہ جہاں عوام تقسیم ہیں، سیاسی سوچیں تقسیم ہیں، ملک کے مستقبل کے حوالے سے تجزیہ کرنے میں دانشور تقسیم ہیں ملک کو راہ دکھانے والے میڈیا تقسیم ہے ، اب تو نہائت افسوسناک حد تک ملک کی اعلی عدالتیوںکے رکھوالے بھی تقسیم ہوچکے ہیں دوران سماعت ایک دوسرے پر جملے کس دیتے ہیں، صبح بیدار ہوکر ٹی وی کھولو تو تمام صوبوںکی عدالتیں ، اعلی ترین عدالت سپریم کورٹ صرف اور صرف سیاسی معاملات پر بحث مباحثہ میں مشغول ہوتے ہیں، جبکہ عوام کے لاکھوں مقدمات سالوںسے کسی شنوائی کا شکار ہیں۔ ججز عدالت سے باہر بیٹھ کر اسطرح بیانات داغ دیتے ہیں جیسے وہ سیاسی رہنماءہوں پاکستان کے آئین کے مطابق انہیں بیان بازی کیلئے اپنی ریٹائیرمنٹ کا انتظار کرنا چاہئے ۔سپریم کورٹ کے چیف جسسٹس قاضی فیض عیسی کے فیصلوں پر اعتراض ، اس سے متفق ہونا نہ ہونا ایک نام نہاد جمہوری ملک کے جمہور کا حق ہے مگر یہ حق کس نے دیا کہ سوشل میڈیا پر معتبر شخصیات ، انکے اہل خانہ ، بچیوںکو سوشل میڈیاکے ذریعے بے ہودہ القاب اورالفاظوں سے نواز جائے قاضی فائز عیسی چیف جسٹس بنے تو لائیو سماعت کے موقع پر پی ٹی وی پر ٹِکر چلایا گیا جس میں چیف جسٹس کی جگہ ''چیپ جسٹس '' لکھا گیا۔ ظاہر ہے یہ غلطی نہ تھی، یہ دانستہ حرکت تھی۔ اس پر پی ٹی وی نے ایکشن لینے کا فیصلہ کیا۔ اس ایکشن کے نتیجے میں متعلقہ ّ''انقلابی'' نے نوکری سے فارغ ہو جانا تھا۔گو کہ نگران حکومت کے دور میں پی ٹی وی اور بھی کارہائے نمایاں انجام دے چکا ہے ۔چیف جسسٹس کو ”چیپ جسسٹس “ لکھنے پر اس موقع پر چیف جسٹس کی جانب سے باقاعدہ طور پر پی ٹی وی انتظامیہ کو پیغام پہنچایا گیا کہ ''ان
کی ذات کی وجہ سے کسی کی نوکری کو خطرہ پہنچے، یہ مناسب نہیں۔ اس لیے اس معاملے کو غلطی سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیا جائے۔ کارروائی کی ضرورت نہیں ۔ایک واقعہ ایک بیکری میں ہوتا ہے۔ یہ تازہ واقعہ نہیں، یہ ایک آدھ ماہ پرانا واقعہ ہے جب مبارک ثانی کیس کی سماعت ہو رہی تھی۔ یہاں ایس ایچ او سے بد تمیزی پر آملیٹ بن جایا کرتا ہے لیکن یہ ملک کا چیف جسٹس جس کوئی ایکشن نہ لیا ، لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کے بیٹے کو روکنے پر اعلی پولیس افسران معطل کر دیے جاتے ہیں ۔ اب مہینہ بھر بعد ویڈیو وائرل کر کے سیاسی جماعت اور اس کے رہنما اس بد تمیزی پر دادو تحسین کے نعرے بلند کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اس نوجوان اور اس کے اہل خانہ کی گرفتاری کی جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں حالانکہ خود فواد چودھری کا ٹویٹ ہے کہ اس نوجوان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ یہاں ویڈیو وائرل کرنے والے وہی تنخواہ دار ہیں جو2018 ءیا اس سے قبل بھرتی ہوئے تھے یا یوںکہاجائے تو بہتر ہوگا کہ پی ٹی آئی نے جو پودے لگائے تھے وہ اب پھل دے رہے ہیں بد تمیزی اور بد تہذیبی بالکل ایک الگ معاملہ ہے۔ اس بیمار رویے کی تحسین کرنے والوں کو پہلی فرصت میں کسی نفسیاتی معالج کے پاس جانا چاہیے سوشل میڈیا جس میں ڈونٹس کا ذکر تھا اور نیچے کچھ گالیاں درج ہوتی ہیں پشت پر پھر پی ٹی آئی تھی یک دم سے سارا سوشل میڈیا بدبو دار، گند نامہ بن گیا اور ایسا محسوس ہوا کہ ہم ایک گندی قوم ہیں جس کے چھوٹے بڑے گندی گالیوں کے سائے میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔ اور یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس کی زد سے ان کے ماضی کے ”فضلو“ اور حال کے مولانا فضل الرحمان جیسی قابل احترام شخصیت بھی نہیں بچی، ان دنوں یہ ان کی امامت میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ ان کی ذلت اور عزت کا دورانیہ بہت مختصر ہوتا ہے۔ ویسے ان کی زد سے آج تک بچا کون ہے۔ عمران خان نے بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب و ملت تمام سیاستدانوں کو چور،لٹیرے اتنی بار کہا جیسے وہ نفسیاتی طور پر اپنے اندر کے چور لٹیرے کو دھمکا رہا ہو۔ نعوذ باللہ اس نے بالواسطہ طور پر خود کو جس طرح نبی کہا ، جو لوگ موصوف کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر وزیراعظم ہاﺅس چھوڑ کر آئے تھے انہیںکبھی کبھی بیت الخلاءمیں بیٹھ کر اپنے اس مکروہ اقدام کے متعلق سوچنا چاہئے ، دوسری طرف حکومت IMFکے کھیل پر نظر ڈالیں، حکومت من وعن imf کی ہدائت پر عمل کرتے جارہی ہے اور کہتی ہے کہ ”بس یہ آخری دفعہ ہے “ وزیر خزانہ نے عندیہ دیا ہے کہ کچھ وزارتیں ختم اورکچھ ضم کی جارہی ہیں یہاںتک ٹھیک ہے کئی وزارتیںخوامخواہ ہیںمگر کیا دوسے معاملے پر سوچا گیا جو وزیر خزانہ فرماتے ہیں کہ ڈیڑھ لاکھ ملازمیںبے روزگا ر ہوجائیںگے ۔ یہ ڈیڑھ لاکھ ملازمین ہی نہیں بلکہ ڈیڑھ لاکھ خاندان ہیںاس مہنگائی میں انکا کیا بنے گا؟؟ ۔ اگر یہ لوگ بھی بال بچوں سمیت سڑکوں پر آگئے تو کیا ؟؟