معاف کیجئے …امین کنجاہی
a.amin1961@gmail .com
قومی المیہ یہ ہے کہ ہم نے نہ تو اپنے نوجوانوں کی تربیت اور کونسلنگ کے لیے کوئی میکانزم بنایا اور نہ ہی ان کو ہنرمند بنا کر بین الاقوامی مارکیٹ میں کام کرنے کے قابل بنایا۔ ہماری نئی نسل کے پاس وقت کی کمی نہیں، صرف ترجیحات متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ اب بھی وقت ہیکہ اگر ہم نے ان کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب نہ کیا تو وہ اپنے قیمتی دنوں کو سستی میں ضائع کر دیں گے اور بیکار ہو جائیں گے۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، ہمیں اپنی نئی نسل کو عملی مہارتوں سے آراستہ کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو انہیں معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بنائے۔ ویسے تو بچے کو بچپن ہی سے اپنے کام خود کرنے کا عادی بنانا چاہیے، اسے مختلف کام کرنا سکھانا چاہیے تا کہ اس سے اس کی ذہنی نشوونما کر سکے۔ اس کی روحانی تربیت کے لیے اسے کسی مسجد یا مدرسے کے ساتھ جزوی طور پر منسلک کرنا چاہیے تا کہ وہ کچھ وقت وہاں گزار کر دین کی تعلیمات اور معاشرتی اخلاقیات سیکھ سکھے۔ نتیجتاً جب کل کو وہ ایک کامیاب شہری بنے تو اسے علم ہو کہ اس کا حلال کمایا ہوا اس کے کام آئے گا نہ کہ حرام، اس کی محنت اس کے کام آئے گی نہ کہ چالبازیاں۔ اگر میڑک کے امتحانات تک ہم اپنے بچے کی اخلاقی تربیت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یقین مانیں کہ یہ تربیت ساری عمر اس کے ساتھ چلے گی اور اس کی ہر قدم پر رہنمائی کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس عمر سے میڑک تک بچے کی مسلسل کونسلنگ کی جانی چاہیے۔ میٹرک کے بعد ایک نئے تعلیمی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ اس وقت نئی نسل کو مستقبل کے بارے میں سوچنے، منصوبہ بندی کرنے اور عملی مہارتیں سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے وقت میں ان کے سابقہ کونسلنگ کے پیش نظر کوئی بھی بہترین ہنر تجویز کیا جا سکتا ہے جو انہیں مستقبل میں فائدہ دے۔ لڑکوں کے لیے، خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں، جہاں ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہی ہے، آئی ٹی کی مہارتوں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ کوڈنگ سے لے کر ہارڈ ویئر کی مرمت تک، یہ مہارتیں بے شمار مواقع فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ویب ڈویلپمنٹ، موبائل ایپ ڈویلپمنٹ، گرافک ڈیزائن، ویڈیو ایڈیٹنگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، سرچ انجن آپٹیمائزیشن، مواد کی تحریر، سوشل میڈیا مینجمنٹ، ای کامرس مینجمنٹ، آئی ٹی سپورٹ سروسز، کمپیوٹر ہارڈویئر کی مرمت، سافٹ ویئر انسٹالیشن اور ٹربل شوٹنگ، فوٹوگرافی، کارپینٹری، پلمبنگ، بجلی کا کام، سلائی، ویلڈنگ، آٹو مکینک ہنر، پینٹنگ اور ڈیکوریشن، موبائل فون کی مرمت، ڈرون آپریشن، سولر پینل کی تنصیب وغیرہ ایسی مہارتیں ہیں جن میں سے اکثر بہترین آن لائن ذاتی کاروبار شروع کرنے کی ضمانت دیتی ہیں جب کہ کچھ مہارتیں ایسی ہیں جن کی باہر کی دنیا میں کافی مانگ ہے۔ یہ مہارتیں نہ صرف آمدنی کا ذریعہ فراہم کرتی ہیں بلکہ نئی نسل کو خود انحصار بننے اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے قابل بناتی ہیں۔ اس طرح لڑکیوں کے لیے، جب کہ آئی ٹی کی مہارتیں بھی اہم ہیں، وہاں ان کے لیے کچھ اضافی شعبے بھی ہیں جہاں وہ سبقت لے جا سکتی ہیں۔ فراغت کے اوقات میں لڑکیوں کو نہ صرف کمانے کی تربیت دی جائے بلکہ شادی کے بعد اپنے گھر کو موثر طریقے سے سنبھالنے کی بھی تربیت دی جائے۔ ان کو مذکورہ بالا مہارتوں کے علاوہ کھانا پکانے اور بیکنگ، سلائی اور کڑھائی، فیشن ڈیزائننگ، انٹیریئر ڈیزائننگ، ہیئر ڈریسنگ اور میک اپ آرٹسٹری، ایونٹ کی منصوبہ بندی، فوٹوگرافی، دستکاری، آن لائن ٹیوشن، بچوں کی دیکھ بھال، فٹنس ٹریننگ، ڈیجیٹل مواد کی تخلیق (یو ٹیوب، بلاگنگ)، فن خطاطی، فرسٹ ایڈ اور ہیلتھ کیئر کی بنیادی باتیں، گھر پر کیٹرنگ کا کاروبار، ہوم مینجمنٹ اور بجٹنگ وغیرہ کی مہارتیں سکھائی جا سکتی ہیں۔ ایسی مہارتیں لڑکیوں کو مالی طور پر خود مختار ہونے، متوازن زندگی گزارنے اور اپنے گھروں کو مو¿ثر طریقے سے سنبھالنے کے قابل بناتی ہیں۔جو بچے اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں وہ فراغت کے اوقات میں انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ ترجیحی بنیادوں پر اس ملک کی زبان یعنی جرمنی، ترکی، چینی، فرانسیسی وغیرہ بھی سیکھیں جہاں وہ مستقبل میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ غیر ملکی زبانیں سیکھنے سے نئی نسل کو عالمی مواقع کا فائدہ اٹھانے اور مختلف ثقافتوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس سارے عمل میں والدین اور اساتذہ کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نئی نسل کو ایک منظم نظام الاوقات فراہم کریں، حقیقت پسندانہ اہداف مقرر کریں اور کامیابیوں کا جشن بھی منائیں تاکہ نوعمر بچوں کی حوصلہ افزائی ہو۔ دنیاوی ہنر کے ساتھ ساتھ روحانی تعلیم پر بھی توجہ دی جائے، تاکہ وہ خود انحصار، اخلاقی اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے والے بن سکیں۔ یہ توازن انہیں ایمانداری، محنت، ہمدردی اور دوسروں کے لیے احترام جیسی مضبوط اخلاقی بنیاد فراہم کرے گا جو ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگیوں میں مددگار ثابت ہوگی۔ نئی نسل کو مسجد، دینی مدارس اور علمائ سے تعلق جوڑنے کی ترغیب دی جانی چاہیے تاکہ اسلام کے بارے میں ان کو صحیح فہم حاصل ہو۔