ڈاکٹر محمود قریشی
مانچسٹر کی دوپہر۔۔۔کیا خوبصورت منظر۔۔سورج سفید اور کالے بادلوں میں چھپا ہوا تھا۔بادل سورج کے ساتھ آنکھ مچولی میں مصروف عمل تھے۔ہلکی ہلکی بوندا باندی نے موسم کو اور حسین بنا دیا تھا۔آج میں اور میری فیملی طارق وزیر صاحب کونصلیٹ جنرل آف پاکستان کے مہمان بننے والے تھے۔ہمارا ہوٹل مانچسٹر سٹی میں تھا اور ہم گاڑی کے منتظر تھے جو ہمیں لینے آرہی تھی۔میں نے ڈرائیور کی کال وصول کی کہ وہ ہوٹل کے سامنے موجود ہے۔گاڑی میں سوار ہوئے اور آہستہ آہستہ ہماری گاڑی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی۔10 یا 15 منٹ دورانیہ کے بعد گاڑی رکی اور میں نے اپنے بائیں جانب سرخ رنگ کی ایک خوبصورت عمارت دیکھی۔ جس کے باہر کونصلیٹ جنرل آف پاکستان کا بورڈ آویزاں تھا۔مذکورہ عمارت سے میں پاکستان کی خاص خوشبو محسوس کر رہا تھا۔کچھ اپنا اپنا سا لگ رہا تھا۔کونصلیٹ کے کچھ اہم افراد ہمیں بڑے پروقار طریقے سے ساتھ لے کر طارق وزیر صاحب کے کمرے تک لے کر آئے۔طارق وزیر صاحب نے بھرپوراستقبال کیا۔ ان کی شخصیت بارعب اور پروقار تھی۔دفتر کے اندرونی ماحول سے یقینا بیوروکریسی کا رنگ نمایاں تھا اور اس میں پاکستانیت بھی شامل تھی۔اس موقع پر میری بیگم نصرت محمود اور بیٹی ڈاکٹر جویریہ محمود بھی موجود تھیں۔تھوڑی دیر بعد ہی ان کے عملے نے ہمارے سامنے پڑی ہوئی میز کو اللہ تعالی کی مختلف کھانے کی نعمتوں سے سجا دیا۔کھانا بہت لذیذ تھا۔مجھے مچھلی بہت پسند ہے اور میں نے ہر طرح کی مچھلی کھائی ہے۔لیکن یہاں پر مچھلی کی ایک ایسی ڈش موجود تھی۔جس کے بارے میں طارق وزیر صاحب نے بتایا کہ یہ مچھلی بڑی خوش ذائقہ اور لذیذ ہے۔برطانیہ میں آئے ہوئے ہمیں تقریبا 20 روز سے زیادہ ہو چکے تھے۔اس دوران زیادہ کافی کا ہی استعمال کرنا پڑا۔لیکن پاکستانی چائے ہمیں یہاں میسر ہوئی۔چائے کے ساتھ چاہت بھی شامل ہو تو لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔اس دوران باتوں کا سلسلہ بھی جاری تھا اور میں بطور اینکر پرسن انٹرویو کرنے کی عادت سے بھی مجبور تھا۔لہذا میں نے طارق وزیر صاحب سے پوچھا کہ وہ کہاں پیدا ہوئے۔تو انہوں نے بتایا کہ میں وزیرستان میں پیدا ہوا۔میرے والد صاحب چیف انجینیئر اریگیشن تھے۔ہم تمام بہن بھائیوں نے اپنی تعلیم پشاور سے حاصل کی۔ہم پانچ بھائی ہیں جن میں سے تین بھائی بیوروکریٹ ہیں اور باقی دونوں بھائی معروف ڈاکٹرز ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ انگلش لٹریچر میں ماسٹر کی ڈگری یونیورسٹی آف پشاور سے حاصل کی۔ریڈ ڈپلومیسی کوین الزبتھ آکسفورڈ یونیورسٹی UK سے حاصل کی۔اس کے علاوہ جیپنیز لینگویج کورس اوساکا جاپان سے کیا۔ہم لنچ کر چکے تھے۔آج مانچسٹر میں درجہ حرارت کافی کم تھا مگر کمرے کا ماحول بہت بہتر تھا۔ایک سلجھی ہوئی شخصیت اور چہرے پر مسکراہٹ ان کے والدین کی تربیت کی ترجمانی کر رہا تھا۔میری بیگم اور بیٹی کے ساتھ مسز طارق وزیر کی فون پر بات بھی ہوئی۔ان کا اصرار تھا کہ اپ لوگ ہر صورت ہمارے گھر بھی تشریف لائیں۔یہ ان کی محبت تھی لیکن دوسری جانب ہماری مجبوری تھی کہ ہم نے آج ہی واپس لندن جانا تھا۔کیونکہ ہم پہلے سے ہی لندن میں ہوٹل کی بکنگ کروا چکے تھے۔میری بیگم نے ان کی بے نظیر محبت کا شکریہ ادا کیا۔ان کے بچے بچیوں میں سالار طارق وزیر۔ہانیہ طارق اور ہمنا طارق شامل ہیں۔مجھے طارق وزیر صاحب نے بتایا کہ ہم جس ملک میں بھی جائیں تو وہاں بچوں کی تعلیم کے حصول کے لیے بہترین سکول موجود ہیں۔جس کی وجہ سے ہمیں بچوں کی تعلیم میں کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آتی۔۔۔۔چائے کے دوسرے دور میں طارق وزیر صاحب نے بتایا کہ وہ 13 جولائی 2020 سے مانچسٹر UK میں بطور کونسل جنرل آف پاکستان اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔اس سے پہلے ڈپٹی ہائی کمشنر آف پاکستان کینبرا آسٹریلیا میں 2018 سے 2020 تعینات رہے۔اس کے علاوہ بہت سارے ممالک میں اپنی مختلف سرکاری ڈیوٹیاں سر انجام دیتے رہے۔انہوں نے مزید کہا کہ میرا مقصد تارکین وطن کی مشکلات کو کم یا ختم کرنا ہے۔پاکستانی بہن بھائیوں کے لیے میرے دفتر کے دروازے ہمہ وقت کھلے ہیں۔یہاں موجود پاکستانیوں کو سنی سنائی باتوں پر عمل کرنے کی بجائے براہ راست پاکستانی کونصلیٹ دفتر سے رابطہ کرنا چاہیے۔شام کے تقریبا چار بج چکے تھے۔بہت سارے موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ان تمام موضوعات کا ذکر یہاں کرنا ممکن نہیں۔خواہش۔تمنا۔ ارزو اور جستجو کو حقیقت کے پیمانے سے تولا جائے تو جستجو سب پر بھاری ہے۔طارق وزیر حقیقت پسندانہ سوچ کے مالک ہیں اور اپنی جستجو کے بل بوتے پر موجودہ منزل پر پہنچے ہیں۔ اس شعر کے ساتھ آج کے کالم کا اختتام کروں گا۔
خواہش سے نہیں گرتے پھل جھولی میں
وقت کی شاخ کو میرے دوست ہلانا ہوگا
کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے
اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہوگا۔