سید ولی شاہ آفریدی
pmlnfata99@gmail.com
وزیراعظم شہباز شریف نے اقتدار کی تاریخ میں پہلی بار مسلمان ممالک کی بہ نسبت فلسطین اور لبنان مسئلے کو نہ صرف اپنے تقریر کے ابتدائی حصے میں اٹھایا بلکہ اسرائیل کی بربریت پر عرب حکمرانوں سے زیادہ سخت موقف اپنا کر نہ صرف عالم عرب اور مسلمانوں کے دل جیت لیے بلکہ فلسطین اور لبنان کے مسلمانوں نے بھی وزیراعظم کے خطاب کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنا شروع کر دیا ہے وزیراعظم نے کشمیر پر بھی اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستان کے درینہ موقف کو اپنایا بلکہ بھارت کو پہلی بار اقوام متحدہ کے فورم سے منتبیہ کیا کہ اگر بھارت نے کبھی بھی پاکستان کے خلاف سازش کی تو اس سے بھرپور قوت سے جواب دیا جائے گا اپنے تقریر کے اخری حصے میں 2022 کے سیلاب اور پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اپنی حکومت کے اقدامات کو دنیا کے سامنے واضح کر دیے کہ ترقیافتہ ممالک کے صنعتوں کی وجہ سے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے جن چیلنجوں کا سامنا ہے اس پر کھل کر بات کی اور یہی وجہ ہے کہ یہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے اکتوبر میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل اور 2022 کے سیلاب پر مزید بات چیت اور امداد پر رضامندی ظاہر کی وزیراعظم نے اخر میں برادر اسلامی ملک افغانستان کے عوام خصوصا بچے اور خواتین کو جن مشکلات کا سامنا ہے اقوام متحدہ کی تین ارب ڈالر کی امدادی پیکج کی اپیل میں دنیا کو فوری طور پر اپنا حصہ ڈالنے کا مطالبہ بھی کیا وزیراعظم محمد شہباز شریف نے دلیرانہ اقدام اٹھاتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے خطاب کے دوران اجلاس سے بائیکاٹ کیا اور احتجاجاً واک اوٹ کر گئے نیتن یاہو کے ڈائس آنے پر پاکستان واحد ملک ہے جس نے سب سے پہلے اقوام متحدہ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کیا درجنوں سفارتکار بھی جنرل اسمبلی حال سے باہر نکل گئے سوشل میڈیا پر وزیراعظم محمد شہباز شریف کی دلیرانہ اقدام کو سراہا جا رہا ہے اور زبردست الفاظ میں انہیں خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے۔ کہ غزہ میں جاری مظالم کی صرف مذمت کافی نہیں بلکہ اس جارحیت کو فوری طور پر رکنا چاہیے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79 ویں سیشن سے خطاب کا آغاز قرآن کی آیت سے کیا اور فلسطین میں جاری اسرائیلی بربریت و مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ دوسری مرتبہ بطور وزیراعظم پاکستان اس اسمبلی سے خطاب اعزاز ہے۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح کے فرمان کے مطابق دنیا میں امن کے لیے پر عزم ہیں۔ انہوں نے کہا اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج، ہمیں عالمی سطح پر انتہائی خطرناک چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک طرف غزہ میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کش جاری ہے۔ دوسری طرف یوکرین میں ایک خطر ناک تنازع موجود ہے جبکہ افریقا اور ایشیا میں تباہ کن تنازعات، بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی کشیدگی، دہشت گردی، تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات کے ساتھ بھاری قرض جیسے عوامل ہیں۔ جس کے باعث دنیا اب ایک نئی سر و جنگ میں داخل ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے لوگوں کی حالت زار پر پاکستانی عوام کے دکھ اور درد کا اظہار کرنے کے لیے آپ کے سامنے کھڑا ہوں، فلسطینیوں پر جاری مظالم پر ہمارے دل خون کے آنسو رورہے ہیں، ارض مقدس میں ایک سانحہ جاری ہے جس نے انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ غزہ میں جاری مظالم پر کیا ہم بحیثیت انسان خاموش روسکتے ہیں؟ جب کہ بچے اپنے ٹوٹے ہوئے گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہوں؟ کیا ہم ان ماو¿ں کیلئے آنکھیں بند کر سکتے ہیں، جو اپنے بچوں کے بے جان، جسموں کو جھونک رہی ہیں؟ وزیراعظم نے کہا کہ غزہ میں جاری مظالم صرف تنازع نہیں بلکہ یہ معصوم لوگوں کو منظم قتل اور نسل کشی ہے۔ غزہ کے بچوں کے خون سے نہ صرف ظالموں بلکہ ان لوگوں کے ہاتھ بھی رنگے ہوئے ہیں جو اس ظلم کے تنازعے پر خاموش اور اسرائیل کے شراکت دار ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ اگر ہم ان باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ہمارے اندر انسانیت ختم ہوگئی ہے، غزہ کے مظالم کی صرف مذمت کافی نہیں بلکہ اب آگے بڑھ کر اس خونریزی کو ہمیں روکنا اور رعمل کرنا ہوگا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بے گناہ فلسطینیوں کا خون اور قربانیاں کبھی رائیگا ں نہیں جائیں گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں فلسطین اور اسرائیل کے دور یاستی حل کے ذریعے پائیدار امن کے لیے کام کرنا چاہیے۔ 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک قابل عمل، محفوظ، متصل اور خود مختار مملکت فلسطین کو تسلیم کرنا چاہیے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو اور ان اہداف کو حاصل کرنے کیلئے فلسطین کو فوری طور پر اقوام متحدہ کے مستقل رکن کے طور پر تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ غزہ میں مصائب ختم کرنے کے لیے فلسطین کے دور یاستی حل کی ضرورت ہے، فلسطین کو اقوام متحدہ کے مستقل رکن کی حیثیت فوری ملنی چاہیے۔ آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دار الحکومت القدس ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب لبنا ن میں اسرائیل جارحیت شروع ہوگئی ہے، لبنان میں اسرائیلی جارحیت سے خطے میں بڑی جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداردوں پر عمل در آمد میں ناکامی کی وجہ سے اسرائیل کو ظلم کرنے کا حوصلہ ملا جس کے وجہ سے اب پورے مشرق و سطحی کو جنگ کی طرف دھکیلا جارہا ہے اور اس کے
سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔ پاکستان غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم و جارحیت کی مذمت کرتا ہے۔ غزہ کے المناک سانحے نے انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مگر المیہ ہے کہ عالمی طاقتیں اس پر خاموش یا پھر صرف مذمت کی حد تک محدود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سمیت دیگر پڑوسی ممالک سے پاکستان میں اسپانسرد ہشت گردی کو پروان چڑھا یا جارہا ہے، عبوری افغان حکومت اپنی سر زمین سے دہشت گردوں کا خاتمہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے اسکول جانے والے بچوں کو بھی نشانہ بنایا، اے پی ایس اسکول کے سانحے کی یادیں آج تک ہمیں یاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے ہماری معیشت کو 150 بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان نے دودہائیوں کے دوران دہشت گردی کا دلیری اور کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا جبکہ اس جنگ میں 80 ہزار فوجیوں اور شہریوں کی شہادتیں بھی ہوئیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ بدقسمتی سے، آج پاکستان کو ایک بار پھر بیرونی مالی امداد اور اسپانسر شدہ دہشت گردی کی نئی لہر کا سامنا ہے، ملک میں بدامنی پھیلانے کیلئے کالعدم تی ٹی پی، بی ایل اے، مجید بریگیڈ، فتنہ الخوارج کے ساتھی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم کوئی غلطی نہیں کریں گے اور اس کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔ جس کے لیے آپریشن عزم استحکام شروع کیا جارہا ہے، فتنہ الخوراج کے عزائم کو ہر قیمت پرناکام بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم عالمی برادری کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی تمام شکلوں کا مقابلہ کریں گے اور نسداد دہشت گردی کے عالمی فن تعمیر میں اصلاحات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی عبوری حکومت انسانی حقوق کا احترام کرے اور خواتین و لڑکیوں کے حقوق، سیاسی شمولیت، تعلیم کی اجازت بھی دے۔ اسکے علاوہ افغان حکومت کو اپنی سر زمین پر موجود تمام دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے موثر کا روانی کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سمیت دیگر پڑوسی ممالک میں بیٹھے دہشت گرد پاکستان میں بدامنی پھیلا رہے ہیں۔ افغانستان میں موجود اعش، القاعدہ اور فتنہ الخوارج امن کیلئے خطرہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھی فلسطین کی طرح حق خووارادیت کی جد وجہد کر رہے ہیں جبکہ مسئلہ کشمیر بھی سلامتی کو نسل کے ایجنڈے پر موجود اور کشمیریوں کے حق خووارادیت سے متعلق سلامتی کونسل کو قراردادیں موجود ہیں۔ یہ طے ہو ا تھا کہ کشمیریوں کو حق خووارادیت ملے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، کشمیروں نے برہان وانی کی جدو جہد کواپنایا ہوا ہے۔ شبہاز شریف نے کہا کہ کشمیر ی حق خودارادیت کیلئے جدو جہدجاری رکھے ہوئے ہیں اور پاکستان اس کی حمایت کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں۔ بھارت کو تعلقات معمول پر لانے کیلئے کشمیر میں پانچ اگست 2019 کے اقدام کو ختم کرکے کشمیریوں کو ان کا حق دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں آباد ی کا تناسب تبدیل کرنے کی مذموم کوششیں ہورہی ہیں۔ غیر مقامی افراد کو کشمیر میں آباد کیا جارہا ہے۔ بھارت کے جارخانہ عزائم سے خطے کے امن کو خطرات ہیں، بدقسمتی سے پاکستان کی مثبت تجاویز کا بھارت نے جواب نہیں دیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں ایک بار پھر واضح کرنا چاہتا ہوں۔ کہ اگر بھارت نے کسی بھی قسم کی مہم جوئی کی تو پاکستان اس کا بھر پور اور منہ توڑ جواب دے گا۔ خطے میں امن کے قیام کیلئے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں یکطرف اقدامات ختم کرنا ہوں گے۔شہباز شریف نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بھاری قیمت ادا کی، ہمارے بہادر جوان، بچے اور شہری اس نا سور کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے، فتنہ الخوارج کے عزائم کو ہر قیمت پر ناکام بنایا جائے گا۔ وزیراعظم نے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دو سال قبل پاکستان میں بتاہ کن سیلاب آیا جس سے جانی اور 30 ارب ڈالر کے مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے، ہم عالمی شراکت داروں کے ساتھ ملکر پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کیلئے پر عزم ہیں۔ شہباز شریف نے عالمی مالیاتی نظام پر گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ 100 سے زائد ترقی پذیر ممالک قرضوں میں جکڑ ے ہوئے ہیں، اس لیے اب اس نظام میں اصلاحات بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی موثر پالیسیوں کی بدولت پاکستان کی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ جبکہ مہنگائی میں کمی اور معاشی اشاریے بہتر سمت میں جار ہے ہیں۔