جمعة المبارک ‘29 ربیع الاول 1446ھ ‘ 4 اکتوبر 2024

حکومت کا محکمہ بہبود آبادی ختم کرنے کا فیصلہ۔
یہ سب ثمرات رائٹ سائزنگ کے ہیں جس کی بدولت کئی اداروں کے ملازمین کو رانگ نمبر کالیں موصول ہو رہی ہیں۔ اب بہبود آبادی یعنی خاندانی منصوبہ بندی جیسا پرانا محکمہ بھی ختم ہونے والا ہے۔ یوں اب ہم ، بچے کم خوشحال گھرانہ‘ بچے ایک یا دو ذمہ اور نہ لو‘ بچوں کی پیدائش میں وقفہ بہت ضروری ہے۔جیسے خوبصورت سلوگن سننے سے محروم ہو جائیں گے۔ اب ہمیں کم بچوں کے فوائد اور زیادہ بچوں کے نقصانات سے کون آگاہ کریگا۔ ویسے آپس کی بات ہے‘ آج تک گزشتہ 40 برسوں سے ہم نے کونسا انکے اس پیغام پر عمل کیا ہے۔ سچ کہیں تو ہمیشہ اس پیغام کیخلاف عمل کیا اور آج دیکھ لیں شاید ہی کسی گھر میں ایک یا دو بچے دیکھنے کو ملیں گے جبکہ کم از کم چار اور زیادہ کی حد نہیں‘ گیارہ بھی ہو سکتے ہیں بچے ہر گھر میں پائے جاتے ہیں۔ سہولتیں ہوں یا نہ ہوں‘ کھانے کو روٹی پوری ہو نہ ہو۔ کپڑے اور جوتے میسر نہیں مگر بچوں کی فل یا ہاف ٹیم گھر میں ضرور ہونی چاہیے۔ نجانے کیوں ہمارے ہاں زیادہ بچے پیدا کرنے کو مردانگی سمجھا جاتا ہے۔ کیا انہیں بھوکا ناخواندہ اور بیمار رکھنا بھی مردانگی کہلاتا ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں اگر اچھا کام بھی کرنا ہو تو پہلے ہم غلط کام شوق سے پورا کرتے ہیں۔ جب ہمیں عقل آتی ہے کہ کم بچے ہی اچھے ہوتے ہیں‘ تب تک دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی آبادی خیر سے 24 کروڑ ہو چکی ہے جبکہ وسائل اسکے عشرعشیر بھی نہیں جس کی وجہ سے خوراک سمیت ہر چیز کی قلت عروج پر ہے۔ نہ اتنے گھر ہیں نہ سکول‘ نہ ہسپتال۔ اس سے اندازہ کرلیں کہ اس آبادی کو محفوظ مستقبل کون دیگا۔ ایک خوشحال پاکستان کا خواب کب پورا ہوگا‘ اس بارے میں کون سوچے اور کیوں سوچے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس محکمے کے بند ہونے سے بیروزگار ہونے والے ملازمین کا کیا ہوگا۔ اب کہیں وہ بھی سڑکوں پر نہ آجائیں اور آبادی کے بجائے اپنی روزی کے تحفظ کیلئے شور مچائیں۔ 
انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے لئے وی آئی پی پروٹوکول‘ میچ 7 اکتوبر کو ملتان میں ہوگا۔ 
اچھی بات ہے کہ غیرملکی کرکٹ ٹیمیں اب بے خوف و خطر پاکستان آکر کھیل رہی ہیں۔ لاہور‘ کراچی‘ ملتان‘ راولپنڈی کے سٹیڈیم ان میچوں کی وجہ سے بھرے ہوتے ہیں۔ شائقین کی بڑی تعداد آتی ہے‘ مگر اسکے ساتھ ساتھ یہ بات بھی تکلیف دہ ہوتی ہے کہ اس موقع پر ان ٹیموں کی حفاظت کیلئے جو سکیورٹی انتظامات کئے جاتے ہیں‘ وہ عوام کیلئے سخت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ سٹیڈیم اور کھلاڑیوں کی رہائش گاہ یعنی ہوٹل کے اردگرد میلوں تک تقریباً ناکہ بندی کی جاتی ہے۔ اس سے علاقے میں آنے جانے والے محصور ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کرفیو نافذ ہے۔ اب انگلینڈ کی ٹیم آئی ہے تو انہیں حکومت نے وی وی آئی پی پروٹوکول دینے کا اعلان کیا ہے۔ یعنی عوام کیلئے پابندیاں مزید سخت ہونگی۔ کرفیو کا ماحول ہوگا۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ آمدورفت میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں‘ بس ٹیم کے آتے اور جاتے وقت جتنا وقت درکار ہے‘ سکیورٹی سخت رکھی جائے ہوٹل اور سٹیڈیم کی کڑی نگرانی کی جا ئے۔ کھیلوں کے ایونٹ کو زحمت بنانے سے سٹیڈیم خالی رہتے ہیں کیونکہ لوگ جانتے ہیں کہ راستے بند ہونے ہیں۔ آنا جانا مشکل ہوتا ہے‘ وہ اس اذیت سے بچنے کیلئے سٹیڈیم جانے کی بجائے ٹی وی پر میچ دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر خوار ہوتی نظر آتی ہے۔ یوں تفریح ایک اذیت میں بدل جاتی ہے۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ ویسے خوشی بھی ہوتی ہے کہ ہمارے کھیل کے میدان آباد ہو رہے ہیں اور دنیا والوں کو پاکستان آکر کھیلنے میں اب کوئی خوف یا خطرہ نہیں رہا۔ 
فضل الرحمان سے ملاقات‘ نوازشریف کا پیغام پہنچا دیا۔ عرفان صدیقی۔ 
اس وقت فضل الرحمان کی گڈی چڑھی ہوئی ہے۔ جسے دیکھوامرت دھارا سمجھ کر انکی طرف دوڑا چلا جاتا ہے۔ یوں وہ اپنی 6 رکنی اسمبلی ممبران کی طاقت کو 60 کے برابر سمجھتے ہوئے خوب دیکھ بھال کر بھاو¿ تول یعنی سیاسی گٹھ جوڑ میں مصروف ہیں۔ ان حالات میں جب طاقت کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا ہوتا ہے‘ آدمی خود کو اہم ترین سمجھنے لگتا ہے تو وہ بھلا کسی نئے یا پرانے دوست کی کیا سنے گا۔ اب فضل الرحمان کو میاں نواز شریف کا جو پیغام دیا گیا ہے‘ اس سے ان پر کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ وہ تو اپنے دیرینہ مربی ، دوست اور بابائے مفاہمت آصف علی زرداری کو بھی بول بچن سے اس وقت ٹرخا رہے ہیں تو میاں نوازشریف سے تو انہیں کئی شکوے بھی ہیں ،ان کی وہ کیا سنیں گے۔ لیکن شطرنج کی بساط پر کچھ بھی ہو سکتا ہے اور بروقت چال چلنے والا ہی کامیاب ہوتا ہے۔ اگر دیر ہو جائے تو پھر سپاہی یعنی پیادہ بھی وزیر کو مات دےدیتا ہے۔ اب کہیں روٹھنے اور ماننے کے چکر میں فضل الرحمان اپنی اہم چال نہ کھو دیں اور انکی ساری سیاسی پریکٹس رائیگاں چلی جائے۔ ”میں اہم تھا بس یہی وہم تھا“ کی وجہ سے ہماری سیاست کے بڑے بڑے نامور کھلاڑی آج ”میں ہوں اپنی شکست کی آواز “ بنے نظر آتے ہیں۔ ویسے بھی دو کشتیوں میں پاﺅں رکھنے والا کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ اب مولانا کو بھی جلد فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ بتائیں کہ کس کی طرف ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں۔ خود کو فیصل آباد کا گھنٹہ گھر نہ بنائیں۔
اپوزیشن کے احتجاج سے حکومت پریشان‘ پکڑ دھکڑ جاری۔
اپوزیشن کا تو کام ہی ہے احتجاج‘ شور شرابا‘ مگر یہ حکومت کیوں وقت سے پہلے ہی گھبرا کر وہی سب کچھ کر رہی ہے جو پہلے سے ہوتا آرہا ہے۔ کوئی تو نظام بدلے‘ ماحول بدلے‘ مگر یہاں تو وہی غالب والی بات 
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے پوچھیں گے کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو
حالات تو چھوڑیں یہاں کوئی اپنے آپکو بدلنے کیلئے تیار نہیں‘ آج 4 اکتوبر کو پی ٹی آئی نے جن شہروں میں احتجاجی مظاہرے کرنے کا اعلان کیا ہے‘ وہاں کی انتظامیہ کے ہاتھ پاﺅں پہلے ہی پھول گئے ہیں۔ گھبراہٹ میں گرفتاریوں اور رکاوٹوں کا ایسا ماحول بنا دیا گیا گویا بڑی قیامت آنے والی ہے۔ کئی شہروں میں تو گڑبڑ بھی ہوئی ہے۔ بے شک امن و امان برقرار رکھنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ وہ بات چیت سے بھی دفعہ 144 پر عملدرآمد کرا سکتی ہے۔ اپوزیشن والے تو چاہتے ہیں کہ ایسے حالات پیدا ہوں کہ حکمرانوں کیلئے سنبھالنا مشکل ہو جائے۔ اس وقت خیبر پی کے میں وزیراعلیٰ جن مظاہرین کی قیادت کرینگے‘ اطلاعات کے مطابق وہ تربیت یافتہ اور کیل کانٹوں سے لیس ہونگے۔ شاید اس طرح وہ ایک کی جگہ دس گولیوں کا تحفہ دینے کے موڈ میں ہیں۔ علیمہ خان ڈی چوک میں جانے کا کہہ رہی ہیں‘ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی دارالحکومت کو فتح کرنے سے معلوم نہیں کونسا مسئلہ حل ہوگا۔ سب نے آنا بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی ہوتا ہے۔ اس کا ادراک حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ہے مگر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ کسی کو نہیں ہوگا صرف ملک و قوم کیلئے پریشانی پیدا ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن